کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 283
آپ پیش کر دیتے تو امام شافعی کی تصریح کے بموجب ایک بھی کام کا نہ ہوتا۔ایسی حالت میں اگر کوئی شخص یزید کے مرسل کو امام شافعی کے قول کے بموجب قابلِ استدلال ظاہر کرتا ہے تو بڑا شرمناک تعصب اور خلافِ دیانت بات ہے مرسل روایتوں کا دوسرا جواب:آخر میں ایک بات اور سن لیجئے۔امام شافعی فرماتے ہیں: واذا وجدت الدلائل بصحة حیثہ بما وصفت اجبنا ان تقبل مرسلہ ولا نستطیع ان نزعم ان الحجة تتثبت بالموتصل([1])انتھی(الرسالہ بشرح احمد محمد شاکر ص 464) یعنی ایسے راوی کی حدیث کی صحت کے دلائل اگر ہماری بیانکردہ شرطوں کے مطابق پائے جائیں گے تو ہم اس کی مرسل روایت کو قبول کرلینا پسند کریں گے۔(لیکن بایں ہمہ)ہم یہ کہنے کی جرات نہیں کر سکتے کہ اس مرسل روایت سے اسی طرح حجت قائم ہو گی جس طرح کسی متصل روایت سے ہوتی ہے۔اسی بات کو حافظ ابن کثیر نے ان لفظوں میں ادا کیا ہے ولا ینتھض الی رتبة المتصل یعنی یہ مرسل حدیث(شرائط صحت کے تحقق کے بعد بھی)کسی متصل روایت کے برابر نہیں ہو سکتی۔ تیسرا جواب:یہ گذارشات تو اس تقدیر پر پیش کی گئی ہیں کہ مولانا مئوی کی پیش کردہ ان تمام روایتوں کا ''مرسل'' ہونا تسلیم ہو۔ورنہ جمہورمحدثین(جن میں امام شافعی بھی شامل ہیں)کی اصطلاح کے مطابق ان روایتوں میں سے کوئی ایک روایت بھی ''مرسل'' نہیں ہے بلکہ یہ سب ''موقوف منقطع'' ہیں۔کیونکہ
[1] قولہ بالموتصل ہذة لغة الحجاز کذا قال احمد محمد شاکر فی شرح 12