کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 279
لیجئے امام شافعی کے نزدیک حدیث مرسل کے مقبول ہونے کی سب سے پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ کبار تابعین سے مروی ہو اور یہی روایت دوسری مسند یا مرسل روایتوں کی تائید وغیرہ سے قوت پکڑے گی اور حجت ہو گی غیر کبار تابعین کی مراسیل تو کسی حال میں بھی مقبول نہیں ہیں۔حافظ ابن حجر ایک جگہ لکھتے ہیں: والشافعی انما یعتضد عندہ اذا کان من روایة کبار التابعین(فتح الباری باب صب الماء علی البول فی المسجد) یعنی مرسل روایت امام شافعی کے نزدیک اس وقت قوت پکڑتی ہے جب وہ کبار تابعین سے مروی ہو۔ امام شافعی کی اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے اس کے بعد آگے بڑھیے۔ قولہ:جب یہ ذہن نشین ہو چکا تو سنیے کہ یزید بن روما ن کا اثر اگرچہ مرسل ہے،مگر اس کی تائید کئی دوسرے مرسلوں سے ہوتی ہے جو ابھی مذکور ہوں گے لہذا بالاتفاق مقبول اور حجت ہے(رکعات ص 95) ج:ہم نے بھی ابھی جو کچھ عرض کیا ہے اگر وہ ذہن سے محو نہ ہو چکا ہو تو سنیئے کہ یزید بن رومان صغار تابعین میں سے ہیں۔اس لئے ان کے اس اثر کی تائید خواہ کتنے ہی مرسلوں سے ہوتی ہو۔نہ وہ امام شافعی کے نزدیک مقبول ہے اور نہ اکثر ائمہ و محدثین کے نزدیک۔اس لئے آپ کا یہ دعویٰ بالکل غلط اور سراسر ناواقفیت پر مبنی ہے کہ ''وہ بالاتفاق مقبول اور حجت ہے''۔ یہی حال ان تمام ''مرسلوں'' کا ہے جو آپ نے اس موقع پر ذکر کئے ہیں