کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 278
فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اور اس بحث کے سلسلہ میں بار بار امام شافعی کا حوالہ دیا ہے۔حالانکہ اگر وہ وسعت مطالعہ سے کام لیتے اور شرح نخبہ جیسی مختصر کتاب ہی پر اپنی نظر مقصور نہ کر دیتے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ امام شافعی کا مسلک اس باب میں ان کیلئے کچھ بھی مفید نہیں ہے بلکہ الٹا مضر ہے۔ اس وقت ہمارے سامنے ا مام شافعی کا ''الرسالة'' بھی موجود ہے،مگر اس کی طویل عبارت نقل کرنے کی بجائے ان کا خلاصہ ہم مشہور محدث حافظ عماد الدین ابن کثیر کے لفظوں میں پیش کرتے ہیں۔لکھتے ہیں: والذی عول علیہ کلامہ فی الرسالة ان مراسیل کبار التابعین حجة ان جاء ت من وجہ اخر ولو مرسلة او اعضدت بقول صحابی او اکثر العلماء او کان المرسل لو سمی لا یہی الاثقة فحینئذ یکون مرسلہ حجة ولا یلتھض الی رتبة المتصل۔قال الشافعی وامامراسیل غیر کبار التابعین فلا اعلم احد اقبلھا انتھی(اختصار علوم الحدیث ص 15 یعنی امام شافعی نے اپنی کتاب ''الرسالہ'' میں لکھا ہے کہ کبار تابعین کی مرسل روایتیں حجت ہیں بشرط یہ کہ وہ کسی دوسرے طریق سے بھی مروی ہوں۔خواہ وہ دو سرا طریق مرسل ہی کیوں نہ ہو۔یا ان کی تائید کسی صحابی یا اکثر علماء کے قول سے ہوتی ہو یا ارسال کرنے والا راوی جب نام لے تو ثقہ ہی کا نام لے۔ان شرائط کے ساتھ مرسل حجت ہو گی مگر پھر بھی وہ متصل کے برابر نہیں ہو سکتی۔امام شافعی نے یہ بھی لکھا ہے کہ غیر کبار تابعین(یعنی متوسطین اور صغار تابعین)کی مرسل روایتوں کی بابت میں کسی(اہل علم)کو نہیں جانتا جس نے ان کو قبول کیا ہو۔