کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 275
منقطع اور ایسی بلاغات بھی ہیں جو پوری سند کے ساتھ متصل ہو کر بہت کم پائی جاتی ہیں ''۔ صحیح مسلم کے مقدمہ میں ہے کہ بشیر بن عمر نے بیان کیا ہے کہ میں نے امام مالک سے ایک راوی کا حال دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ کیا اس راوی کی کوئی روایت تم نے میری کتابوں میں دیکھی ہے؟میں نے عرض کیا کہ نہیں۔انہوں نے فرمایا لوکان ثقة لریتہ فی کتبی۔یعنی اگر یہ راوی ثقہ ہوتا تم اس کو میری کتابوں میں دیکھتے۔امام نووی تو اس کے ذیل میں لکھتے ہیں: ھذا تصریح من مالک بان من ادخلہ فی کتابہ فھم ثقة فمن وجدناہ فی کتابہ حکمنا بانہ ثقة عند مالک وقد لا یکون ثقة عند غیرہ یعنی یہ امام مالک کی طرف سے اس بات کی تصریح ہے کہ جس راوی کو انہوں نے اپنی کتاب میں داخل کیا ہے وہ ثقہ ہے اس لئے جس راوی کو ہم نے ان کی کتاب میں پائیں گے اس کی بابت حکم لگائیں گے کہ یہ امام مالک کے نزدیک ثقہ ہے۔ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ وہ راوی دوسرے محدثین کے نزدیک ثقہ نہ ہو لیکن مولانا عثمانی نے اس کے خلاف لکھا ہے۔وہ لکھتے ہیں: کذا قال النووی الا ان لفظة مالک انما تدل علی ان من لم یرو عنہ فی کتبہ فلیس بثقة عندہ لا علی ان کل من روی عنہ فی کتبہ ثقة واللّٰه اعلم(فتح الملہم ج 1 ص 142) یعنی نووی نے تو ایسا کہا ہے،مگر امام مالک کے الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جس راوی سے انہوں نے اپنی کتابوں میں روایت بیان نہیں کی ہے وہ راوی ان کے نزدیک ثقہ نہیں ہے۔ان الفاظ سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ ہر وہ راوی جس