کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 272
ھذا الوجہ وقد صنف فی زمان مالک مؤطات کثیرة فی تخریج احادیثہ مثل کتاب ابن ابی ذئب وابن عیینہة والثوری و معمر(رکعات ص 63 ج:شاہ صاحب کی اس عبارت میں ''ھل رای مالک ومن وافقہ'' اور ''من ھذا الوجہ'' کے فقرے خاص طور پرقابل توجہ ہیں۔شاہ صاحب نے یہ نہیں لکھا ہے کہ مؤطا میں جتنی روایتں ہیں وہ سب کی سب واقع میں اور تمام محدثین کے نزدیک صحیح ہیں بلکہ یہ لکھا ہے کہ امام مالک اور ان کے مقلدین کی رائے میں صحیح ہیں۔لہذا یہ قول ہم ''غیر مقلدوں'' پر حجت نہیں ہو سکتا۔نیز مؤطا کی مرسل اور منقطع روایتوں کی بابت شاہ صاحب نے یہ لکھا ہے کہ دوسرے طریق سے اس کی سند یں متصل ہیں اور اس ''اعتبار'' سے وہ صحیح ہیں یعنی ان کا متصل ہونا صحیح ہے،لیکن حدیث اور اصولِ حدیث کا ایک مبتدی طالب علم بھی جانتا ہے کہ صرف ''اتصال'' ثابت ہو جانے سے کسی روایت کا ''صحیح'' اور مقبول ہونا لازم نہیں آتا۔کتنی ہی روایتں ہیں جو ''متصل'' ہیں،مگر ضعیف اور مردود ہیں پس یزید بن رومان کے زیر بحث اثر پر ''منقطع'' ہونے کا جو اعتراض کیا گیا ہے اس سے صرف انقطاع کی علت کا اظہار مقصود نہیں ہے بلکہ اس اعتراض کا منشا یہ ہے کہ درمیان سے جو راوی ساقط ہے اس کی ذات بھی مجہول ہے اور اس کے اوصاف و احوال بھی مجہول ہیں اس لئے جب تک راوی کی ذات معلوم نہ ہو اس کی عدالت اور حفظ و ضبط وغیرہ تمام شرائط صحت متحقق نہ ہو ں یہ روایت صحیح اور حجت نہیں ہو سکتی۔