کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 270
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کیا ہو اور کرنے کا حکم بھی دیا ہو تو تم میرے باپ کی رائے کو مانو گے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانو گے؟)۔اس شخص نے کہا بامر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم(میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا حکم مانوں گا)۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا بس تو جاؤ۔(دیکھو طحاوی جلد 1 ص 372)اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عثمان کے عہد خلافت میں حج قران کے ساتھ لبیک پکارا۔حضرت عثمان نے ان کی آواز سنی تو لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟لوگوں نے بتایا کہ حضرت علی ہیں۔حضرت عثمان حضرت علی کے پاس آئے اور ان سے کہا الم تعلم انی نہیت عن ھذا کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ میں نے اس کام سے منع کیا ہے؟حضرت علی نے جواب دیا بلی ولکنی لم اکن لادع قول النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم لقولک معلوم تو ضرور ہے لیکن میں رسول اللہ کے قول کو آپ کے قول کی وجہ سے چھوڑ نہیں سکتا۔(دیکھو طحاوی جلد اول ص 376)خود فقہائے حنفیہ نے بھی لکھا ہے فان سنة النبی اقوی من سنة الصحابة(کشف اصول البزروی جلد 2 ص 308)یعنی صحابہ کی سنت کے مقابلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی سنت قوی اور راجح ہے۔ان صاف اور روشن دلائل کی موجودگی میں کون کہہ سکتا ہے(اور اگر کوئی جہالت سے کہے بھی تو اس کی بات کب قابل سماعت ہو سکتی ہے)کہ گیارہ رکعت تراویح کو تو چھوڑ دیا جائے جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوئہ حسنہ اور آپ کی سنت ثابتہ ہے اور اس کے بدلے میں بیس ہی کو معمول بنایا جائے جو صحابہ کی اجتہادی رائے کا ثمرہ ہے اتستبدلون الذی ھو ادنی بالذی ھو خیر