کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 269
اختلاف پائیں گے تو اس حالت میں تم لوگ(پہلے)میری سنت کو(دیکھنا اگر اس مسئلہ میں میری سنت مل جائے تو اسی کو)مضبوطی سے تھام لینا اور(اگر میری سنت نہ ملے تو)خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرنا''۔چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق مروی ہے: کان ابن عباس اذ سئل عن الامر فکان فی القران اخبربہ وان لم یکن فی القرآن وکان عن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم اخبر بہ فان لم یکن فعن ابی بکر و عمر فان لم یکن قال فیہ بریہ(سنن دارمی طبع مصر ص 59 جلد 1) یعنی'' حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جب کوئی مسئلہ دریافت کیا جاتا تو پہلے قرآن میں غور کرتے اگر اس میں مل جاتا تو اسی کے مطابق بتا دیتے اور اگر قرآن میں نہ ہوتا تو حدیث دیکھتے۔اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل سے اس کی بابت کچھ معلوم ہو جاتا تو اسی کے مطابق حکم دیتے۔اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ نہ ملتا تب ابوبکر اور عمر کا قول و فعل دیکھتے،اگر یہ بھی نہ ہوتا تو اپنی رائے سے جو سمجھ میں آتا کہتے ''۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ملک شام کے ایک شخص نے حج تمتع کے متعلق سوال کیا تو حضرت ابن عمر نے فرمایا حسن جمیل(جائز ہے اچھا کام ہے)۔اس شخص نے کہا فان اباک کان ینھی عن ذل(آپ کے والد حضرت عمر تو اس سے منع کرتے تھے)حضرت ابن عمر نے کہا: ویلک فان کان ابی قد نہی عن ذلک وقد فعلہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم وامر بہ فبقول ابی تاخذام بامر رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم (افسوس ہے تم پر بتاؤ اگر میرے باپ نے اپنی و اجتہاد سے اس کام سے منع کیا ہو،