کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 268
اس کے عوض میں اپنی رائے و اجتہاد سے رکعتوں کی تعداد بڑھا دی گئی بالفاظ دیگر تراویح کی گیارہ رکعتوں کا ماخذ تو بلا شبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعل سنت ہے مگر بیس یا اس سے زائد(بشرط یہ کہ ثابت بھی ہو)صحابہ کی اجتہادی رائے ہے۔ گیارہ رکعت تراویح قابلِ ترک نہیں:پس گیارہ اور بیس کے اختلاف کی بابت مولانا مئوی کی پیس کردہ اس تطبیق کو اگر بالفرض صحیح بھی مان لیا جائے کہ عہدِ فاروقی میں گیارہ پر عمل پہلے ہوا اور اس کے بعد بیس پر عمل جاری ہو گیا تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا یقینا غلط ہے کہ گیارہ رکعت تراویح قابل ترک ہے اور اس کے مقابلے میں بیس ہی قابل عمل اور مستحق تمسک ہے اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت صحیحہ ثابتہ کے مقابلے میں صحابہ کی ''رائے'' کو ترجیح دینا دلائل شرعیہ کی رو سے قطعاً باطل ہے۔قرآن حکیم کا ارشاد ہے: فان تنازعتم فی شٔ فردوہ الی اللّٰه و الرسول ان کنتم تؤمنون باللّٰه والیوم الاخر(النسا ع 8) یعنی آپس میں اگر تمہارے درمیان اختلاف پیدا ہو جائے تو اس نزاع کو اللہ تعالی اور اس کے رسول کی طرف منتقل لٹاؤ اگر تم سچے مومن ہو۔نیز فرمایا: لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوة حسنة الخ(الاخزاب) یعنی'' تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم(کے عمل میں)عمدہ نمونہ موجود ہے'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: من یعش منکم بعد فسیری اختلافا کثیرا فعلیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین الحدیث(احمد،ابوداؤد،ترمذی) یعنی'' تم میں سے جو لوگ میرے بعد زندہ رہیں گے وہ بہت سے مسئل میں لوگوں کا