کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 267
میں عمل اسی پر جاری ہوا۔علامہ زرقانی نے شرح مؤطا میں باجی سے نقل کیا ہے قال الباجی فامرھم اولا بتطویل القرة لانہ افضل ثم ضعف الناس فامرھم بثلاث وعشرین فخفف من طول القرة واستدرک بعض الفضیلة بزیادة الرکعات انتھی(زرقانی ص 215 ج 1) یعنی'' عمر نے پہلے تطویل قرات کا حکم دیا،کیونکہ یہ افضل ہے پھر لوگوں میں کمزوری آ گئی تو(وتر سمیت)تیئس رکعتوں کا حکم دیا اور قرات کی مقدار کم کر دی اس طرح طولِ قرات کی فضیلت کی کچھ کمی کو رکعتوں کی زیادتی سے پورا کر دیا '' اسی قسم کی بات شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی لکھی ہے جو پہلے دو جگہ نقل ہو چکی ہے انہوں نے لکھا ہے کہ ''جب طولِ قیام لوگوں پر شاق ہوا تو حضرت ابی بن کعب لوگوں کو بیس پڑھاتے تھے اور اسی میں قرات ہلکی کرتے تھے ''۔ فکان تضعیف العدد عوضا عن طول القیام وکان بعض السلف یقوم اربعین رکعة فیکون قیامھا اخف و یوتر بعدھا بثلاث الخ یعنی رکعتوں کی تعد اد میں زیادتی طول قیام کے عوض میں تھی(اسی لئے قیام میں جتنی تحفیف کرتے تھے اسی کے لحاظ سے رکعتیں بڑھا دیتے تھے چنانچہ)بعض سلف چالیس رکعتیں وتر کے علاوہ پڑھتے تھے۔تو ان کا قیام(بیس والوں سے بھی)زیادہ ہلکا ہوتا تھا۔اور بعض وتر کے علاوہ چھتیس پڑھتے تھے۔ حاصل یہ ہے کہ گیارہ رکعت پر اضافہ کرکے جو بعد میں بیس یا اس سے زائد رکعتیں پڑھی گئی تو اس کا داعی اور سبب یہ نہ تھا کہ یہ زیادتی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل سے ثابت نہیں ہے،بلکہ مصلحتاً قرات میں تخفیف کی گئی تھی اور