کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 266
جس کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا ہے)۔بیہقی نے لکھا ہے وکان عمر امر بھذا لعدد زمانا(حضرت عمر نے پہلے کچھ دنوں تک اسی عدد کے مطابق حکم دیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے)علامہ ابن ابی جمرة الاندلسی المتوفی 679 ھ نے لکھا ہے: انہ اقتدی فی ذلک التحدید بما روتہ عائشة رضی اللّٰه عنھا ان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم لم یزد فی تنفلہ فی رمضان ولا غیرہ علی احدی عشرة رکعة(بہجة النفوس شرح مختصر بخاری ص 7 جلد 2) یعنی حضرت عمر نے تراویح کے لئے جو گیارہ رکعتوں کی تحدید کی تھی تو اس حکم میں انہوں نے اس روایت کی اقتدا کی تھی جو حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ یعنی علامہ باجی اور ملا علی قاری نے احتمالاً اور حافظ سیوطی اور امام بیہقی اور علامہ ابن ابی جمرة اندلسی نے جزماً لکھا ہے کہ گیارہ کا عدد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے اس لئے اختیار کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عدد بھی گیارہ ہی تھا۔ اب دوسرے سوال کو لیجئے یعنی یہ کہ گیارہ پر رکعتوں کا جو اضافہ ہوا تو اس کا سبب کیا تھا؟اس کے جواب کے لئے سب سے پہلے ابن حبیب کی اسی عبارت پرغور کیجئے جس کو خود مولانا مئوی نے(تھوڑی سی خیانت کے ساتھ)پیش کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ گیارہ رکعت پڑھنے میں قرات لمبی کی جاتی تھی یہ بات لوگوں پر گراں ہوئی تو قرات کی مقدار کم کر دی گئی اور اس کے عوض میں رکعتوں کی تعداد بڑھا دی گئی۔گیارہ سے بڑھا کر بیس کی گئی۔یہ بھی گراں ہوئی تو قرات کی مقدار اور گھٹائی گئی اور رکعتوں کی تعداد بیس سے چھتیس کر دی گئی۔آخر