کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 262
بیہقی وابن حبیب کسی چیز کے واقعہ ہونے کا دعوی بلا دلیل و ثبوت محض احتمال عقلی سے نہیں کر سکتے۔اس لئے ان کے علم میں اس کا ثبوت ہو گا۔وہ ثبوت اگرچہ ہمیں معلوم نہیں مگر ہمارے پاس بہت سے قرائن و شواہد موجود ہیں جس سے ان کی تصدیق ہوتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے جو واقعہ بتایا ہے وہی واقعہ ہے ''(رکعات ص 52،53)۔ یہ طویل اقتباس ہم نے اس لئے پیش کیا ہے کہ ایک طرف تو خود مئوی صاحب کی بات اچھی طرح سمجھ میں آ جائے اور دوسری طرف ہمارے آنے والے جواب کی بنیاد بھی معلوم ہو جائے کیونکہ ہم جو کچھ لکھیں گے وہ ان شاء اللہ مولانا مئوی ہی کے مسلمات اور انہیں کی پیش کی ہوئی عبارتوں اور اقوال پر مبنی ہو گا جن کی انہوں نے پرزور تائید و تصدیق کی ہے۔ سب سے پہلے ہم مولانا مئوی کی اس حرکت پر اظہار افسو س کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ انہوں نے مرقاة شرح مشکوة کے حوالے سے بیہقی کی اور تحفت الاخیار کے حوالے سے ابن حبیب مالکی کی جو عبارتیں نقل کی ہیں ان دونوں عبارتوں کے نقل کرنے میں انہوں نے صریح خیانت کی ہے۔بیہقی کی پوری عبارت ہم دو تین ورق پہلے نقل کر چکے ہیں اور وہاں بھی اس خیانت پر متنبہ کر دیا ہے،ملا کر دیکھ لیجئے۔ ابن حبیب کی عبارت جتنی مئوی صاحب نے یہاں نقل کی ہے اس کے بعد یا ٹکڑا یہ ہے ثم خففوا القراء ة وجعلوا عدد رکعاتھا ستا ثلثین و مضی الامر علی ذلک(دیکھو تحفت الاخیار) عبارت کا یہ آخری حصہ مولانا مئوی نے حذف کر دیا ہے کیونکہ ان کے