کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 261
فسوف تری اذا انکشف الغبار فرس تحت رجلک ام حمار مولانا مئوی لکھتے ہیں: ''بہیقی نے جو تطبیق ذکر کی ہے وہ احتمال عقلی کی بنیاد پر نہیں ہے،بلکہ واقعات کی بنیاد پر ہے۔یعنی ان کے نزدیک واقعتا یہی تاریخی ترتیب ہے کہ پہلے گیارہ پر اور بعد میں بیس پر عمل ہوا۔چنانچہ ان کا لفظ فانھم کا نوا یقومون الخ ہے۔بیہقی یہ نہیں کہتے کہ ممکن ہے پہلے گیارہ پڑھتے ہوں بعد میں بیس پڑھنے لگے ہوں۔بلکہ یہ کہتے ہیں کہ بہ تحقیق وہ پہلے گیارہ پڑھتے تھے اور بعد میں بیس پڑھنے لگے۔چنانچہ بیہقی نے ایک اور مقام پر لکھا ہے:کان عمر امر بھذا العدد زمانا ثم کانوا یقومون علی عہدہ بعشرین رکعة(مرقاة شرح مشکوة)یعنی عمر نے کچھ دنوں تک اسی عدد(گیارہ)کا حکم دیا تھا پھر بعد میں انہیں کے عہد میں لوگ بیس رکعت پڑھتے تھے۔بیہقی کے علاوہ مالکیہ میں ابن حبیب بھی اس کو احتمال عقلی نہیں بلکہ واقعہ بتاتے ہیں۔فرماتے ہیں:انھا کانت اولا احدی عشرة رکعة الا انھم کانوا یطیلون القراء ة فیہ فثقل ذلک علیھم فزاد وافی عدد الرکعات و خففوا القراء ة وکانوا یصلون عشرین رکعة یر الوتر۔ا تحفت الاخیار ص 192 یعنی پہلے گیارہ تھی مگر لوگ قرت لمبی کرتے تھے تو یہ گماں ہوا۔اس لئے رکعتوں کی تعداد میں اضا ت میں تخفیف کر دی اور لوگ وتر کے سوا بیس پڑھتے تھے۔ ظاہر ہے کہ محض ظن و تخمین سے کوئی چیز واقعہ نہیں بن سکتی اور