کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 260
اعتماد نہیں ہے اور اس کے مقابل گیارہ ہی والی روایت راجح اور قابل اعتماد ہے۔ نیز وہ امام مالک کی مؤطا کے بھی شارح ہیں۔لہذا یزید بن رومان کی بیس والی روایت اور امام مالک کی گیارہ والی روایت(جو مؤطا میں مروی ہیں)دونوں ان کے سامنے تھیں اس کے بعد گیارہ کو اختیار کرنے کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہے کہ انہوں نے گیارہ کو یعنی وہ شخص جو پورا مومن نہیں ہے جو اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنی ذات کے لئے پسند کرتا ہے۔ پس امام مالک کے نظریہ کی یہ ترجمانی یقینا غلط ہے کہ وہ گیارہ کو اپنی ذات کے لئے تو پسند کرتے تھے،لیکن دوسرے مسلمانوں کو اس پر عمل کرنے کا فتویٰ نہیں دیتے تھے۔ گیارہ اور بیس کی تطبیق کا جواب:جب گذشتہ مباحث میں گیارہ کی ترجیح کی بابت تمام شکوک و شبہات کا جواب دے کر یہ ثابت کر دیا گیا کہ گیارہ ہی والی روایت راجح ہے اور اس کے مقابلہ میں بیس والی مرجوح ہے تو اب ان دونوں میں تطبیق کا سوال ہی نہیں باقی رہتا،بلکہ اصولاً راجح مقبول ہو گی اور مرجوح نامقبول و مردود۔لیکن کچھ علماء نے ان دونوں میں تطبیق کی صورت بھی اختیار کی ہے۔اس تطبیق کو مولانا مئوی نے بڑی اہمیت دی ہے اور اسی تطبیق کی بنیاد پر انہوں نے یہ عمارت کھڑی کی ہے کہ عہد فاروقی میں گیارہ پر عمل محض چند روز ہوا اور اس کے بعد متروک ہو گیا۔مستقل اور آخری عمل بیس ہی پر ہوا ہے۔لہذا اب قابل عمل صرف بیس کا عدد ہے گیارہ کا نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ تطبیق کی صورت کو بھی بفرض محال صحیح مان کر اس کا بھی جواب دیدیں تاکہ بحث کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہ جائے اور مئوی صاحب کو بھی معلوم ہو جائے کہ ان کے مزعومہ دلائل کی حقیقت کیا ہے: