کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 259
محبوب بتایا ہے اور اس لئے محبوب بتایا ہے کہ محبوب رب العالمین کا یہ معمول تھا قربان جائیے سنت نبویہ علی صاحبہا الصلوة والتحیہ)کے ساتھ اس والہانہ عقیدت اور مومنانہ محبت پر۔ کاش اس سے تقلید کے ان ضدی متوالوں کو کچھ عبرت حاصل ہوتی جو اس سنت کو مٹانے کے در پے ہیں۔امام مالک نے گیارہ اور تیرہ کے اختلاف کو بھی کالعدم قرار دیا ہے۔ ابوبکر ابن العربی چھٹی صدی ہجری کے ایک نامور محدث ہیں جو صحیح بخاری و جامع ترمذی و موطاء مالک جیسی اہم حدیث کی کتابوں کے شارح ہیں انہوں نے بھی گیارہ کو اختیار کیا ہے۔ان کی شان میں قاضی القضاة برہان الدین الیعمری لکھتے ہیں:الامام العلامة الحافظ المتبحر ختام علماء الاندلس واخر ائمتھا و حفاظھا(دیباچہ از ناشر احکام القرآن لابن العربی)یعنی ابو بکر ابن العربی امام ہیں،علامہ ہیں،حافظ حدیث ہیں،علم کا سمندر ہیں۔اندلس کے علماء اور ائمہ و حفاظ کا انہیں پر خاتمہ ہے۔ ان دونوں حوالوں میں سے ابن العربی کے متعلق تو مولانا مئوی کو کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ تسلیم ہے کہ وہ گیارہ ہی رکعت کے قائل تھے۔چنانچہ لکھتے ہیں ''ان کے(یعنی امام مالک کے)متبعین میں فقط ایک شخص گیارہ کے قائل تھے اور وہ ابوبکر ابن العربی ہیں ''۔(رکعات صفحہ 14)۔ یہ ابن العربی وہ ہیں جنہوں نے جامع ترمذی کی شرح لکھی ہے اس لئے کم از کم ترمذی میں بیس کی جو روایت حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کی گئی ہے وہ ان کے علم میں تھی اس کے باوجود انہوں نے گیارہ کو اختیار کیا تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ان کے نزدیک بیس والی روایت قابل