کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 256
ہے کیونکہ اکیس کی تعداد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بسند صحیح ایک مرتبہ بھی ثابت نہیں ہے اسی لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق کسی نے یہ نہیں لکھا ہے کہ رکعات کی تعداد میں اضافہ کر کے انہوں نے جو بیس کر دیا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بیس بھی پڑھا ہے۔ پس ابن اسحق کی نسبت یہ خیال کرنا کہ انہوں نے گیارہ کے مقابلے میں تیرہ کو ترجیح دی ہے،سراسر غفلت اور قلت تدبر پر مبنی ہے۔گیارہ اور تیرہ تو بقول امام مالک(المصابیح)اور حافظ ابن حجر(فتح الباری جلد رابع ص 204 طبع مصر)قریب قریب ایک ہی درجہ میں ہیں۔اس لئے ان دونوں کے مقابلہ میں کسی ایک کی ترجیح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔مقابلہ جو کچھ ہے وہ اکیس کے ساتھ ہے لہذا ابن اسحق کا تیرہ کو اکیس پر ترجیح دینے کا مطلب یہ ہوا کہ انہوں نے گیارہ کی ترجیح کو بھی اکیس پر تسلیم کیا ہے اس لحاظ سے حضرت عمر کے متعلق بیس یا اکیس والی روایت ہرگز قابل اعتماد باقی نہیں رہتی اور اس عدد کا ثبوت ان سے کسی طرح نہیں ہو سکتا۔ رہا یہ سوال کہ ہم نے یہ کیسے کہا ہے کہ گیارہ اور تیرہ والی روایتوں میں کوئی حقیقی اختلاف نہیں ہے بلکہ محض اعتباری اور اضافی ہے … تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کتاب کے شروع میں جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز شب کی بابت گیارہ اور تیرہ کے اختلاف کی بحث آئی ہے وہاں ہم نے بتایا ہے کہ بقول حافظ ابن حجر اس کی راجح توجیہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شب کے شروع میں پہلے دو رکعتیں ہلکی ہلکی پڑھتے تھے۔اس کے بعد لمبی لمبی رکعتیں ادا فرماتے تھے۔تو راوی نے تعداد کی میزان میں شروع کی دو ہلکی رکعتوں کو کبھی شمار کیا اور کبھی نہیں شمار کیا جب شمار کیا تو پوری تعداد تیرہ بیان کی اور جب اس کو نہیں شمار کیا بلکہ صرف لمبی