کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 252
لئے بھی داغدار نہیں ہوا۔اور پھر ان تمام صفات وہ اس لفظ کی روایت میں متفرد بھی نہیں ہے۔بلکہ دو بڑے حافظ و ضابط اس کے مؤید ہیں ایسی صورت میں تنہا عبدالرزاق کی روایت تغیر حافظہ کی جرح کے بغیر بھی قابل ترجیح نہ تھی۔چہ جائیکہ اس جرح کے بعد اس کو راجح قرار دیا جائے۔ الغرض محدث مبارک پوری نے عبدالرزاق اور امام مالک کے حالات کا مقابلہ کیا ہے کہ ان دونوں میں کون ایسے صفات کا حامل ہے جو اس کی روایت کی صحت کا غلبہ ظن پیدا کرتے ہیں اور ترجیح کا موجب ہو سکتے ہیں۔یہ مقصد نہیں ہے کہ عبدالرزاق کی یہ روایت تغیرِ حافظہ کے بعد کی ہے۔اس لئے مرجوح ہے۔سچ ہے وکم منعائب قولا صحیحا و اٰفتہ من الفھم السقیم مولانا مئوی اور ابن اسحق کی ترجیح:اس عام بحث کے علاوہ تیرہ والی روایت کا ایک خاص جواب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ گیارہ اور تیرہ والی روایتوں میں کوئی حقیقی اختلاف نہیں بلکہ محض اعتباری اور اضافی ہے اور ابن اسحق نے جو تیرہ کو اختیار کیا ہے اور ترجیح دی ہے تو یہ گیارہ کے مقابلہ میں نہیں جیسا کہ مولانا مئوی سمجھ رہے ہیں،بلکہ درحقیقت یہ اکیس کا مقابلہ ہے کیونکہ انہوں نے اپنی ترجیح کی بنیاد اس بات پر رکھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ شب کی تعداد بھی تیرہ تھی۔وذلک ان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کانتا لہ من اللیل ثلث عشرة رکعة(قیام اللیل المروزی ص 91) حافظ ابن حجر فتح الباری جلد رابع ص 205 باب فضل من قام رمصان میں لکھتے ہیں: قال ابن اسحق وھذا اثبت ما سمعت فی ذالک وھو موافق