کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 251
بلکہ وہ دو ثقہ اور متقن راوی ان کے متابع و مؤید ہیں جن میں ایک یح بن سعید القطان تو امام الجرح والتعدیل ہیں(جو باقرار مولانا مئوی حافظہ میں امام مالک کی ٹکر کے ہیں)اس لئے اختلاف اور تعارض کی صورت میں یقینا امام مالک ہی کی روایت کو ترجیح ہو گی۔پس حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے اثر کی بابت گیارہ ہی کی روایت صحیح اور ثابت و محفوظ ہے۔اکیس کی روایت غیر محفوظ بلکہ وہم ہے۔ حضرت مولانا مبارک پوری رحمة اللہ علیہ کے اس بیان پر مولانا مئوی نے تنقید کی ہے: ''اس کے جواب میں عرض ہے کہ عبدالرزاق نے کتاب نابینا ہونے سے پہلے لکھی ہے۔لہذا نابینائی کے بعد حافظہ خراب ہو جانے سے کتاب کی روایتوں پر کیا برا اثر پڑھے گا ہاں نابینائی کے بعد اپنی یاد سے جو روایتیں انہوں نے بیان کی ہوں ان پر شک کا اظہار کیجئے تو معقول بھی ہے ''۔(رکعات ص 11) افسوس ہے کہ مولانا مئوی نے محدث مبارک پوری کی بات سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور سچ تو یہ ہے کہ وہ اس کی کوشش کیوں کرتے۔جب کہ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ جواب کا نام ہو جائے۔چاہے کام ہو یا نہ ہو … محدث مبارک پوری نے یہ نہیں کہا ہے کہ اکیس کی روایت اس لئے مرجوح ہے کہ وہ عبدالرزاق کے حافظہ کے تغیر کے بعد کی ہے۔ان کا منشا تو یہ ہے کہ یہ روایت تغیرِ حافظہ سے قبل کی سہی،لیکن ہے ایسے راوی کی جس کے حافظہ پر جرح ہوئی ہے۔(اور ایسی جرح جس کا انکار مولانا مئوی بھی نہیں کر سکے ہیں)۔اس کے بر خلاف گیارہ کی روایت ایسے امام کی روایت ہے جو حفاظ کا رئیس اور متثبتین کا سردار ہے جو اصح الاسانید کا تاجدار ہے جس کا حافظہ پوری زندگی میں کبھی ایک لمحہ کے