کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 248
کوئی ذکر نہیں) (2) دوسرا کہتا ہے ''ہم بیس پڑھتے تھے''(دوسرے لوگوں کا کیا عمل تھا اس کا کوئی ذکر نہیں)۔ (3) ایک کہتا ہے ''رمضان کے مہینے میں بیس پڑھتے تھے ''۔ (4) دوسرا رمضان یا غیر رمضان کسی مہینے کا کوئی نام نہیں لیتا۔ (5) ایک کہتا ہے ''بیس رکعت پڑھتے تھے''(وتر کے ساتھ یا بغیر وتر کے۔اس کا کوئی ذکر نہیں)۔ (6) دوسرا کہتا ہے ''بیس رکعت اور وتر پڑھتے تھے''۔ (7) ایک کہتا ہے حضرت عثمان کے عہد میں شدت قیام کی وجہ سے لوگ اپنی اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے تھے۔ (8) دوسرے کی روایت میں نہ عہد ِ عثمان کا ذکر ہے اور نہ اس کیفیت ادا کا۔ بتائیے بیس کا لفظ بولنے کے سوا اور کس بات میں ''دونوں متفق اللفظ'' ہیں۔تو اگر کسی تاویل و توجیہ کی بنیاد پر آپ اس روایت کو ''مضطرب'' نہیں سمجھتے اور ان نمایاں اختلافات کو کالعدم قرار دے کر پوری ڈھٹائی کے ساتھ یہ دعوی کر بیٹھتے ہیں کہ اس کہ تو پھر ہمیں یہ حق کیوں حاصل نہیں ہے کہ ہم بھی کسی معقول توجیہ کی بنا پر گیارہ والی روایت کے لفظی اختلاف کو کالعدم قرار دیں۔ماہو جوابکم فہو حوابنا۔ گیارہ والی رویت کے متعلق ایک اوراہم اور قابل ذکر بات رہی جاتی ہے۔وہ یہ کہ آئمہ متبوعین میں سے مشہور امام،امام شافعی نے بھی اپنے استاذ امام مالک سے یہی تعداد روایت کی ہے۔امام بہیقی اپنی کتاب معرفتہ السنن و الآثار جلد اول ص 447 میں نقل فرماتے ہیں: قال الشافعی اخبرنا مالک عن محمد بن یوسف عن السائب بن یزید قال امر عمر بن الخطاب ابی بن کعب و تمیما الداری