کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 244
سچ ہے نسوا اللّٰه فانساھم انفسھم اس روایت میں اکیس کا عدد بیان کرنے وا لے صرف ایک شخص عبدالرزاق کے استاد ہیں۔اگر ان کا ثقہ اور حافظ و ضابطہ ہونا تسلیم بھی ہو تب بھی یہ تو یقینی ہے کہ ان اوصاف میں وہ امام مالک کے برابر نہیں ہیں۔تو اگر امام مالک گیارہ کا عدد بیان کرنے میں متفرد بھی ہوتے جب بھی تنہا انہیں کا بیان عبدالرزاق کے شیخ کے مقابلہ میں راجح ہوتا۔چہ جائیکہ امام مالک کے ساتھ یح قطان(وہی یح جو باقرار مولانا مئوی حافظہ میں امام مالک کی ٹکر کے ہیں)اور عبدالعزیز بن محمد جیسے حفاظ و متقنین بھی ہوں تو کون انصاف پسند کہہ سکتا ہے کہ گیارہ کا عدد وہم ہے اور اکیس کا راجح۔حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: ولا یتشکک من لہ ادنی مما رسة بالعلم واخبار الناس ان مالکا لو شا فھہ بخبر علم انہ صادق فیہ فاذا الضناف الیہ ایضا من ھو فی تلک الدرجة از داد قوة و بعد علمایخشی علیہ من السھو انتھی(شرح نخبہ ص 21) یعنی جس کو علم حدیث اور روایات کے ساتھ ادنی لگاؤ بھی ہو گا وہ اس میں شک نہیں کر سکتا کہ بالفرض اگر امام مالک آمنے سامنے ہو کر خود اس کی خبر دیتے تو وہ یقینا ان کو اس خبر میں سچا جانتا تو جب امام مالک کے ساتھ انہی جیسا کوئی دوسرا حافظ ضابط اس خبردینے میں شریک ہو تب تو ظاہر ہے کہ اس کی قوت اور بڑھ جائے گی اور سہو کا جو احتمال اور خطرہ تھا وہ بھی دور ہو جائے گا '' اور یہ کہنا تو نری ڈھٹائی اور عصبیت کی بات ہے کہ ''اس اثر سے گیارہ کا