کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 243
ایسے تعصب سے خدا کی پناہ۔ اور تو اور مئوی صاحب کے علامہ شوق نیموی نے بھی ابن عبد البر کے اس قول کی پرزور تردید کی ہے:لکھتے ہیں قلت ما قالہ ابن عبدالبر من وھم مالک فغلط جداً لان مالکا قد تابعہ عبدالعزیز بن محمد عند سعید بن منصور فی سننہ ویح بن سعید القطان عند ابی بکر بن ابی شیبة فی مصنفہ کلاھما عن محمد بن یوسف وقالا احدی عشرة کما رواہ مالک عن محمد بن یوسف انتھی(تعلیق اثار السنن ص 52 جلد 2 یعنی'' ابن عبدالبر نے گیارہ کے عدد کو جو امام مالک کا وہم قرار دیا ہے یہ بات ان کی بالکل غلط ہے۔امام مالک اس لفظ کی روایت میں متفرد نہیں ہیں،بلکہ یح بن سعید قطان اور عبدالعزیز بن محمد نے بھی ان کی متابعت کی ہے اور جیسے ا مام مالک نے محمد بن یوسف سے گیارہ کا عدد روایت کیا ہے ویسے ہی ان دونوں نے بھی ابن یوسف سے یہی عدد نقل کیا ہے ''۔ اسی تعصب کے جوش میں مئوی صاحب کو خود اپنے گھر کی خبر ہی نہیں رہی اور یہ نہ سوچا کہ اگر ابن عبدالبر نے گیارہ کو وہم قرار دے کر اکیس کو ترجیح دی ہے تو اس کی زد میں حنفی مذہب بھی آ جاتا ہے اس لئے کہ اس صورت میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اکیس رکعت وتر کے ساتھ تھیں یا بغیروتر کے۔اگر وتر کے ساتھ تھی تو وتر ایک رکعت تھی یا تین۔اگر ایک تھی تو حنفیہ کا یہ مذہب باطل ہوا کہ وتر تین رکعت سے کم جائز نہیں ہے۔اور اگر وتر تین تھی تو تراویح کی رکعتیں اٹھارہ ہوئیں۔پھر بیس پر ''اجماع'' کا حشر کیا ہو گا؟نیز اس کا کیا بنے گا کہ بیس رکعت سنتِ مؤکدہ ہے۔اس کا تارک گنہ گار ہے اور شفاعتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے محروم؟