کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 242
''اس اختلاف میں ابن اسحاق جو خود راوی اثر ہیں انہوں نے تیرہ کو ترجیح دی ہے اور ابن عبدالبر نے اکیس کو ترجیح دی ہے اور گیارہ کو وہم قرار دیا ہے۔لہذا اس اثر سے گیارہ کا ثبوت بھی نہ ہو سکے گا،الا یہ کہ گیارہ کی ترجیح کسی محدث سے ثابت کی جائے۔ہم دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ اگلے محدثین میں سے کسی ایک محدث سے بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ اس تیرہ اور اکیس کے مقابل میں گیارہ کو ترجیح دی ہے۔محدثین نے ترجیح اگر دی ہے تو تیرہ یا اکیس کو ورنہ یوں تطبیق دی ہے کہ پہلے گیارہ رکعتیں تھی بعد میں اضافہ کر دیا گیا ''۔(رکعات ص 39) ترجیح یا تطبیق کے متعلق ان اقوال کے نقل کرنے سے مولانا مئوی کا منشا دراصل روایت کے اختلاف کو دور کرنا تو ہے نہیں،بلکہ ان کی اصل غرض تو گیارہ رکعات کی بابت لوگوں کو شک اور التباس میں ڈالنا ہے،اسی لئے انہوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان اقوال میں بعض مردود اور غلط ہیں،ان کو بھی بلا دریغ نقل کر دیا ہے اور ان کی کمزوری اور غلطی کی طرف کوئی ادنیٰ سا اشارہ بھی نہیں کیا ہے۔کیا یہ شرمناک تعصب اور افسوسناک بددیانتی نہیں ہے؟۔ بلا شبہ ابن عبدالبر نے گیارہ کو امام مالک کا وہم قرار دیا ہے اور اس لفظ کی روایت میں ان کو متفرد کہا ہے،لیکن مصابیح،زرقانی شرح مؤطا،تحفت لاخیار جن تین کتابوں کا آپ نے اس موقع پر حوالہ دیا ہے ان تینوں کتابوں میں جہاں ابن عبدالبر کا یہ قول منقول ہے وہیں ساتھ ہی اس کی مدلل تردید بھی موجود ہے۔معلوم نہیں یہ آپ کی ''کرامت'' ہے یا ''حسن اتفاق'' کہ ابن عبدالبر کے اس قول پر تو آپ کی نظر پڑی،مگر اس کی تردید جو وہیں موجود تھی،آپ کو نظر نہ آئی