کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 241
مقبول اور قابل حجت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گیارہ رکعات پڑھانے کا ''حکم'' دیا۔کسی دیانت دار،حق پسند کے لئے اس سے جان چھڑانا ناممکن ہے اور اس اختلاف کی بابت یہ کہنا از روئے اصول بالکل غلط ہے کہ ''ایک ثقہ حافظ کے مقابلہ میں چار ثقہ حافظوں کا بیان ترجیح پائے گا''۔اس لئے کہ ان کے بیانوں میں کوئی منافات اور معارضہ نہیں ہے۔ اب دوسرے اختلاف کی تفصیل سنیئے: دوسرے اختلاف کی دلیل:علامہ مئوی لکھتے ہیں: ''عبدالرزاق کے استاد تو سرے سے گیارہ کا نام ہی نہیں لیتے بلکہ وہ اکیس کا عدد ذکر کرتے ہیں۔اسی طرح ابن اسحق بھی گیارہ کے بجائے تیرہ کا عدد ذکر کرتے ہیں،باقی یح ا ور عبدالعزیز گیارہ کا عدد ضرور ذکر کرتے ہیں مگر یہ نہیں کہتے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے گیارہ کا حکم دیا ہے''(رکعات ص 38) اس کا جواب:حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حکم دیا یا نہیں اور اگر دیا تو کتنی رکعات کا؟اس کی تفصیلی بحث گذر چکی اور اس کے متعلق مولانا مئوی کی تمام تشکیکات و تلبیسات کا پردہ چاک کر کے ہم نے بتا دیا کہ حقیقت کیا ہے۔اس لئے اب اس بحث سے قطع نظر کرکے صرف تعداد رکعات کے اختلاف کی بابت ''علامہ'' مئوی کے اضطراب کو دور کرنا ہے۔ہم نے پہلے بتایا ہے کہ اس اختلاف کی بابت مولانا مئوی نے ترجیح اور تطبیق کی بعض صورتیں اپنی کتاب میں ذکر کی ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس روایت کو ''مضطرب'' کہہ کر فن اصول سے اپنی ناواقفیت کا ثبوت دیا ہے۔یا عوام کو مظالطہ میں ڈالنے کے لئے تجاہل سے کام لیا ہے۔بہرحال مئوی صاحب نے جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ درج ذیل ہے: