کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 240
کے اس طرح مخلاف اور منافی ہے کہ اس کے مان لینے سے اوثق کی روایت کا رد کرنا لازم آتا ہے تو ایسی صورت میں وجوہ ترجیح پر غور کر کے راجح مقبول ہو گی اور مرجوح رد کر دی جائے گی۔ حافظ کے اس بیان کی رو سے امام مالک کی زیر بحث روایت کے مقبول ہونے میں تو کوئی شبہ ہی نہیں ہو سکتا۔اس لئے کہ یہاں امام مالک اور دوسروں کے بیان میں نہ تو منافات ہے اور نہ دوسرے امام مالک کے مقابلہ میں اوثق،احفظ اور اضبط ہی ہیں۔ یہی حافظ ابن حجر ''مقدمہ فتح الباری'' 2/82 میں لکھتے ہیں: ما تفرد بہ بعض الرواة بزیادة فیہ دون من ھو الثر عددا او اضبط ممن یذکرھا فھذا لا یؤثر التعلیل بہ الا ان کانت الزیادة منا فیة بحیث یتعذر الجمع اما ان کانت الزیادة لامنافاة فیھا بحیث تکون کالحدیث المستقل فلا اللھم الا ان وضع بالدلائل القویة ان تلک الزیادة مدرجة فی المتن من کلام بعض رواتہ فما کان من ھذ القسم فھو مؤثر انتھی۔ دیکھئے حافظ صاف لکھ رہے ہیں کہ اگر کوئی راوی کسی بات کے بیان کرنے میں منفرد ہو اور دوسرے راوی جو تعداد میں زیادہ ہوں یا حافظہ میں بڑھ کر ہوں،اس بات کو ذکر نہ کریں تو اس کی وجہ سے متفرد راوی کی حدیث معلول نہیں ہو گی مگر یہ کہ دونوں کے مدلول و مفہوم میں ایسی مخالفت اور منافات ہو کہ جمع و تطبیق متعذر ہو۔اگر دونوں کے مفہوم میں کوئی منافات نہیں ہے تو حدیث بلا شبہ مقبول ہو گی۔ الحاصل محدثین کے فیصلے کی رو سے امام مالک کا یہ بیان قطعاً صحیح،