کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 238
لکھتے ہیں: اذا انفرد الراوی بشٔ نظر فیہ فان کان ما انفرد بہ مخالفا لما راوہ من ھو اولی منہ بالحفظ لذلک واضبط کان ما تفرد بہ شاذا مردوداً وان لم یکن فیہ لما رواہ غیرہ وانما امر رواہ ھو ولم یروہ غیرہ فینظر فی ھذا الراوی المنفرد فان کان عدلا حافظاً موثوقاً باتقانہ وضبطہ قبل ما انفرد بہ ولم یقدح الانفراد فیہ الخ(مقدمہ ص 30) جب راوی کسی بات کے بیان کرنے میں متفرد ہو تو دیکھا جائے گا کہ اس کی یہ بات اس سے زیادہ حفظ و ضبط والے راویوں کی بات کے مخالف ہے یا نہیں۔اگر مخالف ہے تو یہ شاذ اور مردود ہے اور اگر مخالف نہیں ہے بلکہ یہ صورت ہے کہ اس نے جو بات کہی دوسروں کی روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے تو ایسی حالت میں اگر یہ منفرد راوی ثقہ اور قابل اعتماد ہے تو اس کی بات مقبول ہو گی اور اس کے انفراد کی وجہ سے یہ روایت مجروح نہ ہو گی۔ دیکھئے حافظ ابن صلاح نے صاف صاف لکھ دیا ہے کہ اگر منفرد راوی ثقہ اور حافظ ہے تو صرف کسی بات کے ذکر اور عدم ذکر کے اختلاف کی وجہ سے اس منفرد راوی کی بات نا مقبول نہیں ہو گی اور نہ وہ روایت مجروح قرار دی جائے گی۔یہی حافظ ابن الصلاح آگے چل کر ص 33 پر لکھتے ہیں: وقد ریت تقسیم ما ینفرد بہ الثقة الی ثلثة اقسام احدھا ان یقع مخالفاً منا فیاً لما رواہ سائر الثقات فھذا حکمہ الرد کما سبق فی نوع الشاذ الثانی ان لا یکون فیہ منافاة ومخالفة اصلا لما