کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 236
حدیث کے لئے کچھ مضر ہے۔ اس لئے حدیث زیر بحث کے اختلاف کی بابت ترجیح یا تطبیق کی صورتوں کو جانتے ہوئے بھی اس کو ''مضطرب'' کہنا فن اصول سے بے خبری کی دلیل ہے۔یاعوام کی ناواقفیت سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش ہے۔ بہر حال اب ہم ان اختلافات کو آپ کے سامنے رکھتے ہیں جن کو مئوی صاحب ''اضطراب'' سمجھ رہے ہیں۔ مولانا مئوی نے اگرچہ راویوں کے اس لفظی اختلاف کی ''لذیذ حکایت'' کو بڑی دراز نفسی کے ساتھ بیان کیا ہے،مگر تلخیص کے بعد اختلاف کی صرف دو صورتیں قابل ذکر نکلتی ہیں۔ پہلی یہ کہ ایک استاد کے پانچ شاگردو ں میں سے صرف ایک شاگرد نے اس کا ذکر کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گیارہ رکعت پڑھنے کا حکم دیا تھا۔باقی چار شاگرد اس کے ذکر سے خاموش ہیں۔یعنی ان کی روایت میں حکم دینے کا ذکر نہیں ہے۔ دوسری یہ کہ رکعات کی تعداد میں اختلاف ہے۔تین شخصوں نے گیارہ کا عدد بیان کیا ہے ایک نے تیرہ کا۔ایک نے اکیس کا۔ اس اجمال کے بعد اختلاف کی ان دونوں صورتوں کی تفصیل الگ الگ خود مولانا مئوی کی زبان سے سنئے۔ پہلے اختلاف کی تفصیل: ''سائب کے اثر کو ان سے محمد بن یوسف نقل کرتے ہیں اور محمد بن یوسف کے پانچ شاگرد ہیں۔(1)امام مالک(2)یحی قطان(3)عبدالعزیز بن محمد(4)ابن اسحاق(5)عبدالرزاق کے استاد۔اوران