کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 234
دیا ہے وہ باصول محدثین بالکل صحیح اور قابل ا حتجاج ہے۔کسی محدث نے بھی اس کو قابل ردقرار نہیں دیا ہے۔خود علماءِاحناف بھی اس کی صحت کو تسلیم کرتے ہیں۔مولانا نیموی نے لکھا اسنادہ صحیح(آثار السنن ص52 ص2)علامہ طحاوی نے شرح معانی الاثار جلد اوّل ص173 میں اس روایت کو تین رکعت وتر کے ثبوت میں پیش کیا ہے اور کسی قسم کا کوئی ادنیٰ کلام بھی نہیں کیا ہے۔مولانا مئوی کے اصول کے مطابق اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ طحاوی کے نزدیک یہ روایت صحیح اور قابل حجت ہے۔طحاوی حدیث دانی کے اعتبار سے علماءِاحناف کے نزدیک کیا مقام رکھتے ہیں اس کے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔علامہ سیوطی نے اس روایت کی نسبت لکھا ہے۔سندہ فی غایة الصحة(المصابیح ص8)مؤطا امام مالک میں بھی یہ روایت موجود ہے او رمؤطا کی مرسل او رمنقطع روایتوں کو مولانا مئوی صحیح سمجھتے ہیں۔………(دیکھو رکعات ص63،64)تو پھر اس متصل روایت کی صحت میں کیا کلام ہو سکتا ہے۔ اس لئے اس روایت کو دیکھ کر مولانا مئوی کو بڑا اضطراب لاحق ہوا اور جان چھڑانے کے لئے اس فکر میں پڑے کہ کسی نہ کسی طرح ا س پر کوئی جرح کی جائے۔کچھ نہ ملا تو راویوں کے تعبیر و بیان کے تھوڑے سے لفظی اختلاف سے ہی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔اور اسی کو خوب پھیلا کر اور نمایاں کر کے پیش کر دیا او رعوام کو مغالطہ دینے کے لئے یہ دعویٰ کر دیاکہ ''اصول حدیث کی رو سے یہ روایت مضطرب ہے ''۔(رکعات ص8) لطف یہ ہے کہ ساتھ ہی ترجیح و تطبیق کی بعض صورتیں بھی نقل کی ہیں،حالانکہ اصولِ حدیث کا ایک معمولی طالب علم بھی جانتا ہے کہ جو اختلاف ترجیح یہ تطبیق کے ذریعے دو رہو سکتا ہو ا س کو اصطلاحًا اضطراب نہیں کہا جاتا اور نہ وہ