کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 233
بھی گیارہ رکعتوں کو افضل اور بیس کو تطوعًا جائز سمجھتے تھے۔اسی لئے گیارہ کا حکم دیا اور بیس پر نکیر نہیں فرمائی۔ یہی اہل حدیث کا مذہب بھی ہے۔ یہ جواب تواس تقدیر پر ہے کہ بیس پر لوگوں کا عمل خود اپنی رائے اور اجتہاد کی بنیاد پر رہا ہو،لیکن اگر وہ صورت رہی جو بیہقی،زرقانی،سیوطی،ابن تیمیہ وغیرہم نے لکھی ہے۔(جس کی تفصیل آگے آئے گی)کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے گیارہ رکعات کا حکم دیا تھا پھر تطویل قرات سے جب لوگ گھبرائے تو اس میں تخفیف کر کے اس کے عوض میں رکعات کی تعداد بیس کر دی …تو اس صورت میں بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم کی خلاف ورزی کا سوال ختم ہوجاتا ہے۔اور جب یہ سوال ختم ہو جائے گا تو اس واہمہ کے لئے بھی گنجائش باقی نہیں رہے گی کہ '' ان کے علم میں بیس کی کوئی ایسی زبردست دلیل تھی جو وجوب اطاعت خلیفہ کی حدیث سے بڑھ کر واجب العمل تھی ''۔ ہاں اس صورت میں یہ شبہہ ضرور پیدا ہو گا کہ گیارہ کا عمل عارضی تھا اور بیس کا آخری اور مستقل۔تو ان شاء اللہ اس کا جواب ہم آئندہ تفصیل سے دیں گے۔اس سے پہلے ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ مولانا مئوی کے ان شبہات کا جواب دے دیں جو گیارہ رکعات والے فرمانِ فاروقی پر انہوں نے وارد کئے ہیں۔وما توفیقی الا باللّٰه۔ فرمان فاروقی رضی اللہ عنہ سے جان چھڑانے کے لئے ''علامہ'' مئوی کا اضطراب گیارہ رکعات کی بابت فرمانِ فاروقی والی جس روایت کا حوالہ ہم نے اوپر