کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 232
نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اور غیر ثابت کا اختلاف ہے۔تراویح بجائے خود ایک نفل نماز ہے نہ یہ خود واجب ہے اور نہ اس کی رکعتوں کی کوئی خاص تعداد واجب ہے۔ اس لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گیارہ رکعات کے پڑھنے کا جو حکم دیا تھا،تو اس کا منشا یہ نہ تھا کہ اس تعداد کی پابندی واجب ہے،بلکہ یہ تو افضل عمل کے لئے ایک مشورہ اور راہ نمائی تھی۔جیسا کہ تراویح کے متعلق انہوں نے فرمایا تھا والتی ینامون عنہا افضل من التی یقومون فیہا۔حافظ ابن حجررحمة اللہ علیہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں:ہٰذا تصریح منہ بان الصلوٰة فی اٰخر اللیل افضل من اولہ۔(فتح الباری ص204 ص4)یعنی اس فقرہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ(تراویح و تہجد کی)نماز آخر شب میں پڑھنا،اول شب میں پڑھنے سے افضل ہے۔ لیکن اس کے باوجود لوگ اوّل شب میں پڑھتے تھے اور آج تک پڑھتے ہیں۔اسی طرح گیارہ کی تعداد کے متعلق بھی چوں کہ امر وجوبی نہ تھا اور اختلاف کی گنجائش خود خلیفہ ہی کی طرف سے موجود تھی۔اس لئے ''ان کے حکم کی خلاف ورزی'' کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لہٰذا گر تکثیر رکوع و سجود کے شوق میں لوگ نفلی نماز کی رکعتوں کو زیادہ تعداد میں ادا کر رہے تھے تو فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے روکتے کیوں؟یہ کوئی معصیت او رمنکر کام تو تھا نہیں۔زیادہ سے زیادہ یہ کہ افضلیت کے خلاف تھا۔جیسے وقت کے لحاظ سے ان کا عمل افضلیت کے خلاف تھا،مگر مگر اس کو برقرار رکھا۔اسی طرح اس کو بھی برقرار رکھا۔ اس تقریر کے بعد ''علامہ'' مئوی کا بیس کی ''زبردست دلیل'' والا خواب تو شرمندہ تعبیر نہ ہو گا۔ہاں البتہ اتنا ضرور ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ