کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 231
اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی جماعت کا معائنہ کرنے آتے بھی تھے۔تو اب یہ بات بالکل صاف ہو جاتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس جماعت کا معائنہ فرمانے آتے تھے جو گیارہ رکعتیں پڑھتی تھی۔وہ جماعت جو بیس رکعات پڑھتی تھی اس کا معائنہ بھی حضرت عمر فرماتے تھے،صحیح حدیثوں سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ا سلئے نہ یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قولی سنت ہوئی اور نہ تقریری۔بلکہ کیارہ رکعت یہی ان کی قولی سنت بھی ہے ا ور تقریری بھی۔ ثالثًا چلئے مان لیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علم و اطلاع میں یہ بات تھی کہ لوگ بیس رکعتیں پڑھتے ہیں۔اس تقدیر پر آپ کا بڑا اعتراض یہ ہے کہ جب فرمان فاروقی گیارہ رکعات پڑھنے کا تھااور اس کے باوجود لوگ بیس رکعتیں پڑھتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہو ا کہ عہد فاروقی کے صحابہ وتابعین نے ان کے حکم کی خلاف ورزی کی۔ا س کی وجہ اس کے سوا کوئی دوسری نہیں ہو سکتی کہ ان کے علم میں بیس کی کوئی ایسی زبردست دلیل تھی جو وجوب اطاعت خلیفہ کی حدیثوں سے بڑھ کر واجب العمل تھی ……… خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنی حکم کی اس خلاف ورزی پر کوئی نکیر نہیں فرمائی۔روکنے کے بجائے اس کو برقرار رکھا۔(تلخیص از رکعات ص69،70) جوابًا گزارش ہے کہ گیارہ اور بیس رکعات کے مسئلہ پر ہمارے اور آپ کے درمیان جو اختلاف ہے اس اختلاف کی نوعیت کیا ہے؟شروع میں یہ بات اچھی طرح سمجھا دی گئی ہے۔لیجئے ایک بار پھر سن لیجئے کہ یہ اختلاف معروف و منکر او راطاعت و معصیت کا اختلاف نہیں ہے۔بلکہ افضل اور غیر افضل،یا فعل