کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 230
مانا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جماعت تراویح کا معائنہ کرنے مسجد میں تشریف لاتے تھے،لیکن اس جماعت کا جس کوا نہوں نے خود قائم کیا تھا اور جس کا امام ابی بن کعب اور تمیم داری کو مقرر کیا تھا۔جیسا کہ بخاری کی اس روایت سے ثابت ہوتاہے: عن عبدالرحمن بن عبد القاری انہ قال خرجت مع عمر بن الخطاب لیلة فی رمضان الی المسجد فاذا الناس اوزاع متفرقون … فقال عمر انی اری لو جمعت ہٰولاء علی قارٔ واحد لکان امثل ثم عزم فجمعہم علی ابی بن کعب ثم خرجت معہ لیلة اخری والناس یصلون بصلوة قارئہم ………………(بخاری ص269 ج1) یعنی عبدالرحمن بن عبد بیان کرتے ہیں کہ رمضان شریف مین ایک رات کو میں حضرت عمر کے ساتھ مسجد میں گیا۔دیکھا کہ لوگ منتشر طور پر نمازیں پڑھ رہے ہیں۔کوئی تنہا پڑھ رہا ہے کسی کے پیچھے چند آدمی شامل ہیں۔حضرت عمر نے فرمایا میرا خیال ہو رہا ہے کہ ان سب لوگوں کو ایک ہی امام کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ بہتر ہو گا۔(کچھ غور خوض کے بعد)انہوں نے اپنی یہ رائے پختہ کر لی اور لوگوں کو ابی بن کعب کے پیچھے اکٹھے ہونے کا حکم دے دیا۔(عبدالرحمن بن عبد کہتے ہیں)پھر میں کسی دوسری شب میں حضرت عمر کے ساتھ ہی مسجد میں آیا تو دیکھاکہ لوگ اپنے انہی امام(ابی بن کعب)کے پیچھے نماز(تراویح)پڑھ رہے ہیں …………………… اور یہ معلوم ہو چکا کہ حضرت ابی بن کعب کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گیارہ رکعتیں پڑھانے کا حکم دیا تھا اور وہ اسی کے مطابق پڑھاتے بھی تھے