کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 23
ویطلبون الاسناد الصحیح وسموا انفسہم اہل الرای لانہم یعملون بالری ویترکون خبرا الواحد فعندہم العمل بالدرایة مع وجود مخالفة خبر الواحد عن الثقات جائز وعند المحدثین لا یجود انتہی مختصرًا(نزہة الخواطر مع معجم الا مکنہ ص105) لئے سند صحیح تلاش کرتے ہیں۔اور فقہاء اپنے آپ کو اہل الرأ کہتے ہیں،کیونکہ یہ لوگ رائے پرعمل کرتے ہیں اور خبر واحد کو چھوڑ دیتے ہیں۔ان کے نزدیک اپنی درایت پر عمل کرنا جائز ہے اگرچہ اس کے خلاف ثقہ راویوں کی روایت(خبر واحد)موجود ہو،لیکن یہ محدثین(اہل حدیث)کے نزدیک یہ جائز نہیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک شخص نے ایک مسئلہ دریافت کیا۔انہوں نے جواب دیا اس پر سائل نے یہ معارضہ کیا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو اس کے خلاف کہتے ہیں۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے جواب کے ثبوت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پیش کی اور اس کے بعد فرمایا کہ بتاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانو گے یا ان کے مقابلہ مین ابن عباس کی؟یاد رکھو!اگر تم سچے مومن ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کو دوسروں کی سنت پر مقدم جانو۔الفاظ یہ ہیں۔ فیقول رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم احق ان تاخذ او بقول ابن عباس ان کنت صادقا وفی روایة فسنة اللّٰه وسنة رسولہ احق ان تتبع من سنة فلان ان کنت صادقاً(مسلم شریف جلد اوّل ص405) حضرت عبداللہ بن عمر کے بیٹے عبداللہ نے اپنے باپ سے نقل کرتے ہوئے صحابہ کا عمل بیان کیا کہ نویں ذی الحجہ کو منیٰ سے عرفات جاتے ہوئے بعض