کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 229
جب سارے نمازی خواہ امام ہو یا مقتدی ان کے عہد خلا فت میں بیس پڑھتے تھے اور ان کے شہر میں پڑھتے تھے،بلکہ جس مسجد میں وہ نماز پنجگانہ ادا فرماتے تھے،اسی مسجد میں پڑھتے تھے۔اور یہ بھی ثابت ہے کہ جماعت تراویح کا معائنہ کرنے بھی وہ تشریف لاتے تھے۔تو یقینا ان لوگوں کا بیس پڑھنا ان کے علم و اطلاع میں تھا … … … …(رکعات ص69) تو ہم کیا عرض کریں کہ یہ دعویٰ کتنا غلط اور پر فریب و مغالطہ آمیز ہے کوئی ان سے پوچھے کہ ان عمر جمع الناس علی ابی وتمیم فکان یصلیان احدی عشرة رکعة(ابو بکر بن ابی شیبہ بحوالہ تعلیق آثار السنن ص53 ج2)حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو حضرت ابی اور تمیم داری کے پیچھے تراویح پڑھنے کا حکم دیا۔اس کے بعد یہ دونوں گیارہ رکعتیں پڑھاتے تھے(اس روایت میں ان عمر جمع الناس علی ابی … اور فکان یصلیان … کی فاء تعقیب پر غو رکیجئے)کیا یہ واقعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت کا نہیں ہے۔کیا یہ امام اور مقتدی ان کے شہر میں،بلکہ اس مسجد میں نہیں پڑھتے تھے جس مسجد میں وہ نماز پنجگانہ ادا فرماتے تھے؟… پھر ''سارے نمازی … بیس پڑھتے تھے ''۔یہ کلیہ غلط،پُر فریب او رمغالطہ آمیز نہیں تو اور کیا ہے؟ نیز یہ دعویٰ نرا تحکم او رمحض بے دلیل ہے کہ جو لوگ بیس پڑھتے تھے وہ حضرت عمر کے شہر میں،بلکہ اس مسجد میں پڑھتے تھے جس میں وہ نماز پنجگانہ ادا فرماتے تھے۔سنن کبریٰ اور معرفتہ السنن کی جن روایتوں کوحنفی مذہب کی دلیل میں پیش کیا گیاہے۔ان میں تو ''علیٰ عہد عمر بن الخطاب'' اور ''فی زمان عمر بن الخطاب'' سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔نہ کسی شہر کا ذکر ہے اور نہ کسی مسجد کا