کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 226
ہے اور یہ بات یہاں مفقود ہے(اس لئے ایسے راوی کی حدیث مقبول نہیں ہو گی) صحیحین میں کوئی ایک راوی بھی ایسا نہیں ہے جس کا ترجمہ اسماء الرجال کی کتابوں میں نہ ملتا ہو۔اس لئے ابو عثمان بصری کو صحیحین کے راوی کے ساتھ تشبیہ دینا سراسر مغالطہ ہے یا افسوسناک جرات۔ابن فنجویہ پر بحث کے ذیل میں ہم اچھی طرح ثابت کر چکے ہیں کہ صحیحین کا ہر وہ راوی جس سے شیخین نے احتجاجًا و اصالةً تخریج کیا ہے جمہور امت کے نزدیک معروف العدالة ہے۔صحیحین کے راوی پر دوسرے راویوں کا قیاس کرنا محدثین کی تصریحات سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ مولانا مئوی نے ایک بات یہ بھی لکھی ہے کہ معرفة السنن کی اس روایت کا ضعف سنن کبریٰ والی روایت سے دفع ہو جائے گا۔کیونکہ تعدد طرق سے روایت کا ضعف دور ہو جاتا ہے۔(رکعات ص49) لیکن مولانا کو معلوم ہونا چاہئیے کہ تعدد طرق سے وہ ضعف دور ہوتا ہے جو معمولی درجہ کا ہو۔ہر ضعف تعدد طرق سے دور نہیں ہوتا۔حافظ ابن الصلاح فرماتے ہیں: لیس کل ضعف فی الحدیث یزول بمجیئہ من وجوہ بل ذلک یتفاوت فمنہ یزیلہ ذلک بان یکون ………ان قال ومن ذلک ضعف لا یزول بنحو ذلک لقوة الضعف وتقاعد ھ الجابر عن جبرہ ومقاومتہ۔(مقدمہ ص14) جب ضعف کے انجبار اور عد م انجبار کا معاملہ درجات ضعف کے فیصلے پر موقوف ہے تو ظاہرہے کہ یہ اسی وقت ممکن ہے جب راوی کے ترجمہ اور حالات کا علم ہو۔جس راوی کا کچھ حال ہی معلو م نہ ہو کہ وہ ثقہ ہے یا ضعیف؟اگر ضعیف ہے تو کس درجہ کا ضعیف ہے اور وجۂ ضعف کیا ہے؟اس کے متعلق یہ کیسے فیصلہ