کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 222
شہرت و امامت کا حاصل ہو جانا یہ ہر گز اس بات کو مستلزم نہیں ہے کہ وہ ضبط و عدالت کے اعتبار سے بھی ان جملہ شروط و اوصاف کا حامل ہے جو روایت کی مقبولیت کے لئے شرط ہیں۔جیسا کہ مذکورہ بالا مثالوں سے واضح ہے سبکی او رعبد الغافر نے بھی ابو طاہر کی جو تعریف کی ہے وہ تفقہ،تحدیث،افتاء،عربیت وغیرہ علوم و فنون میں مہارت ہی کی کی ہے۔عدالت و ثقاہت کے متعلق کچھ نہیں کہا ہے۔اس لئے خطیب کی جو عبارت کفایہ ص87 کے حوالہ سے مولانا مئوی نے اس موقع پر نقل کی ہے وہ بالکل بے محل ہے۔خطیب نے یہ نہیں لکھا ہے کہ جس کے افتاء و مشیخت،تفقہ و تحدیث کی شہرت ہو وہ تعدیل و تزکیہ سے مستغنیٰ ہے،بلکہ یہ لکھا ہے کہ ان العلم بظہور سترہما واشتہار عدالتہما اقوی فی النفوس من تعدیل واحد واثنین۔ اس عبارت میں واشتہار عدالتہما کے لفظ پر غور کیجئے۔جس شاہد اور راوی کی عدالت صرف ثابت ہی نہیں بلکہ اس درجہ ثابت ہے کہ وہ ''عام شہرت'' رکھتی ہے تو اب اس کے متعلق کیا سوال ہو سکتا ہے کہ وہ ثقہ اور عادل ہے یانہیں؟سوال تو اس کی بابت ہوگا جس کی ''عدالت'' مشہور نہیں۔خواہ علم و تفقہ وغیرہ مشہور ہی کیوں نہ ہو۔چنانچہ اسی کفایہ میں اور اسی عبارت کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے: والشاہد والمخبر انما یحتاجان الی التزکیہ متی لم یکونا مشہوری العدالة والرضا وکان امرہما مشکلا ملتبسا و مجوزا فیہ العدالة وغیرہا انتھی(کفایہ ص87) یعنی(شاہد وہی مقبول ہے جو بحکم ممن ترضون من الشہداء مرضے اور پسندیدہ ہو)لہذا جس مخبر کی عدالت اور جس شاہد کا مرضی ہونا مشہور نہ ہو،