کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 220
بھی جمہورِ امت کا اتفاق ہے۔ مولانا مئوی نے اسید بن زید کی جو مثال پیش کی ہے کہ ان کی روایت صحیح بخاری میں موجود ہے۔حالانکہ حافظ ابن حجر نے ان کی نسبت لکھا ہے کہ ''میں نے ان کے حق میں کسی کی توثیق نہیں دیکھی'' تو ''علامہ'' مئوی کی یہ بات مغالطہ سے خالی نہیں ہے۔حافظ نے ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیا ہے کہ:وقد روی عنہ البخاری فی کتاب الرقاق حدیثا واحدا مقرونا بغیرہ(مقدمہ ص117 ج2) یعنی اسید بن زید سے بخاری نے ایک روایت کی ہے،لیکن دوسرے ثقہ راوی کے ساتھ ملا کر۔گویا صرف اسید کی روایت پر بخاری نے اعتماد نہیں کیا ہے او رنہ تنہاان کے بیان کو حجت قرار دیا ہے۔ الحاصل ''علامہ'' مئوی ابن فنجویہ کی تعدیل کی نسبت کچھ نہیں ثابت کر سکتے اور ہر طرح سے عاجز ہیں تو کم از کم اتنا ہی ثابت کر دیں کہ یہ صحیحین کے روات میں سے ہیں اور شیخین نے ان سے احتجاجًا روایت لی ہے۔بس اس کے بعد ان کی تعدیل کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہے گا۔جیساکہ علامہ ابن دقیق العید الاقتراح میں لکھتے ہیں: تعرف ثقة الراوی بالتنصیص علیہ من روایة اوذکرہ فی تاریخ الثقات اوتخریج احد الشیخین لہ فی الصحیح وان تکلم فی بعض من خرج لہ فلا یلتفت الیہ اور تخریح من اشتر الصحة لہ او من خرج علٰی کتب الشیخین اٰہ۔(بحوالہ کتاب الجرح والتعدیل للشیخ جمال الدین قاسمی الدمشقی طبع مصر ص5)