کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 218
نہیں کہ وہ صحیح ہیں یا غلط۔انہی میں سے ثعلبی بھی ہیں ''۔ان سب سے بڑھ کر یہ کہ ثعلبی نے اپنی تفسیر میں بہت سی موضوع روایتیں بھی ذکر کی ہیں۔دیکھو ظفر الامانی ص255۔کیا اس سے ثعلبی کے استاد ابن فنجویہ پر کچھ روشنی نہیں پڑتی؟
یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ حافظ ذہبی نے صحیحین کے راویوں کی بابت یہ تصریح کر دی ہے۔ماضعفہم احد ولا ہم بمجاہیل۔(میزان الاعتدال ص260 ج 1)یعنی ان کو کسی نے ضعیف نہیں کہا اور نہ وہ مجہول ہیں۔حافظ ابن حجر نے اسی بات کو زیادہ وضاحت سے پیش کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
فاما جہالة الحال فمندفعة عن جمیع من اخرج لہم فی الصحیح لان شرط الصحیح ان یکون راویہ معروفا بالعدالة فمن زعم ان احدا منہم مجہول فکانہ نازع المصنف فی دعواہ انہ معروف ولاشک ان المدعی لمعرفتہ مقدم علٰی من یدعی عدم معرفتہ لما مع المثبت من زیادہ العلم ومع ذلک فلا تجد فی رجال الصحیح احدا ممن یسوغ اطلاق اسم الجہالة علیہ اصلا کما سنبینہ انتہٰی(مقدمہ فتح الباری ص111 ج2)
یعنی '' حالات کے اعتبار سے تو صحیح بخاری کا کوئی راوی بھی مجہول نہیں ہے۔اس لئے کہ صحیح کی شرط یہ ہے کہ اس کا راوی معروف بالعدالة ہو۔لہٰذا جس کا یہ زعم ہو کہ صحیح بخاری کا کوئی راوی مجہول ہے تو گویا کہ وہ امام بخاری کے اس دعویٰ کا معارضہ کر رہا ہے کہ یہ معروف العدالة ہے۔بلا شبہہ مدعی معرفت کی رائے مقدم ہو گی مدعی عدم معرفت کی رائے پر۔اس لئے کہ نافی سے مثبت کا علم زیادہ ہوتا ہے۔صحیح بخاری کے راویوں میں تم کوئی ایسا راوی نہ پاؤ گے جس کی بابت