کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 217
ہے: روایة مجہول العدالة ہراً وباطنًا مع کونہ معروف العین براویة عدلین عنہ لا تقبل عند الجماہیرآہ ....... باقی رہا حافظ ذہبی کا وہ فیصلہ جو مولانا مئوی نے اس موقع پر نقل کیا ہے،تواس کی رو سے بھی ابن فنجویہ کی یہ روایت صحیح نہیں ہے۔اس لئے کہ قد روی عنہ جماعة لم یت بما ینکر علیہ(اس سے محدثین کی ایک جماعت نے روایت لی ہو اور اس کی روایت ثقات کے خلاف بھی نہ ہو)یہ دونوں شرطیں یہاں نہیں پائی جاتیں،کیونکہ ابن الاثیر جزری نے ان سے روایت لینے والوں میں صرف ابو اسحاق ثعلبی کا نام ذکر کیا ہے۔ابو بکر بن مالک قطعی ابن فنجویہ کے شاگر نہیں ہیں۔جیساکہ مولانا مئوی نے لکھا ہے۔بلکہ یہ تو ان کے استاد ہیں اور یہ روایت ان ثقات کے خلاف بھی ہے جنہوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق گیارہ رکعات کا حکم دینا بیان کیا ہے۔جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔ یہ بات بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں ہے کہ ثعلبی جنہوں نے بقول ابن اثیر جزری کے اپنی تفسیر میں بکثرت باتیں ابن فنجویہ سے لی ہیں۔اخبار و قصص کے بیان کرنے میں بہت غیر محتاط ہیں۔جھوٹے اور سچے سبھی قسم کے واقعات نقل کر دئیے ہیں۔صاحب کشف الظنون لکھتے ہیں: والاخباری لیس لہ شغل الا القصص واستیفائہا والاخبار عمن سلف سواء کانت صحیحة اور باطلة ومنہم الثعلبی انتہٰی .....(کشف الظنون ص200 ج1) یعنی ''وہ مفسرین جن پر تاریخ کا غلبہ ہے،ان کی تمام تر توجہ بس قصوں کی طرف ہوتی ہے وہ گزشتہ لوگوں سے باتیں نقل کرنا جانتے ہیں۔اس سے بحث