کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 216
ایک خاص صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ اس راوی کی تعد یل و توثیق اسی کے ہم زمانہ کسی امام نے کی ہو۔یا ہم زمانہ امام سے یہ تعدیل لی گئی ہو۔کیا محدث مبارک پوری کے کلام میں بھی اس قسم کی کوئی تخصیص اور تقیید ہے؟نہیں اور قطعًا نہیں۔وہ تو صرف یہ فرما رہے ہیں کہ ابن فنجویہ کی عدالت و ثقاہت ثابت کرو۔اب اس کے ثابت کرنے کا جو طریقہ بھی محدثین کے نزدیک معتبر ہو۔وہ ان سب طریقوں کو قبول کرتے ہیں۔اس کے لئے کسی خاص طریقے کی تعیین اپنی طرف سے نہیں کرتے،لیکن اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ سرے سے یہ مطالبہ ہی ترک کر دیا جائے اور راوی کی عدالت کا ثبوت ہوئے بغیر ہی اس روایت کی صحت کو تسلیم کر لیا جائے تو اہل حدیث سے اس کی توقع نہ رکھئے۔اس لئے کہ بقول حافظ ابن حجر رحمہ اللہ،کسی روایت کی قبولت کے لئے راوی کی عدالت شرط ہے۔لکھتے ہیں: ولا یقبل حدیث المبہم مالم یسم لان شرط قبول الخبر عدالة راویہ ومن ابہم اسمہ لا تعرف عینہ فکیف عدالتہ انتہٰی(شرح نخبہ ص70) '' یعنی کسی مبہم راوی کی حدیث تاوقتیکہ ا س کا نام نہ معلوم ہو جائے مقبول نہیں۔کیونکہ جب ا س کی ذات ہی نہیں معلوم ہے توا س کی عدالت کیسے معلوم ہو گی۔اور جب تک راوی کی عدالت نہ معلوم ہو،اس کی روایت مقبول نہیں ''۔ میرا منشاء یہ نہیں ہے کہ ابن فنجویہ مبہمہ ہے،بلکہ غرض یہ ہے کہ مبہم کی حدیث کے نامقبول ہونے کی جو علت ہے وہ یہاں بھی متحقق ہے۔لہٰذا اس اصول کی رو سے ابن فنجویہ کی یہ روایت مقبول نہیں۔کیونکہ اس کی ذات اگرچہ معلوم ہے،مگر اس کی عدالت معلوم نہیں۔تقریب مع التدریب ص115 میں