کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 214
لئے محدث مبارک پوری علیہ الرحمہ نے ابن فنجویہ کی بابت فرمایا ہے: لم اقف علٰی ترجمتہ ای علی ترجمة التی تدل علی کونہ ثقة قابلا للاحتجاج۔ یعنی میں ان کے ایسے حالات پر مطلع نہیں ہوا جن سے ان کا ثقہ اور قابل احتجاج ہونا ثابت ہوتاہو۔یہ منشاء نہیں ہے کہ یہ معمولی باتیں بھی ان کے علم میں نہ تھیں جو مولانا مئوی کے لئے سر پایۂ افتخار بنی ہوئی ہیں۔پس محدث مبارک پوری کا یہ مطالبہ اپنی جگہ جوں کا توں قائم ہے کہ: فمن یدعی صحة ہٰذالاثر ان یثبت کونہ ثقة قابلا للاحتجاج یعنی جو شخص اس اثر کی صحت کا مدعی ہو اس پر لازم ہے کہ وہ ابن فنجویہ کا ثقہ اور قابل احتجاج ہونا ثابت کر ے۔ قولہ: اس کے بعد میں یہ بتانا چا ہتا ہوں کہ ابن فنجویہ کی نسبت لکھنے کو تو مولانا یہ لکھ گئے،لیکن اگر ان کے اصول پر عمل شروعکر دیا جائے تو صحیحین کی بہت سی حدیثوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔(رکعات ص....) ج: آپ لوگ تو پہلی ہی '' صحیحین کی بہت سی حدیثوں سے ہاتھ دھوئے'' بیٹھے ہیں۔اس لئے کہ علامہ زیلعی(مشہور حنفی عالم)نے لکھا ہے کہ امام بخاری جامع صحیح میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہ حدیثیں لائے ہیں جن سے امام ابو حنیفہ کے مذہب پر اعتراض وارد ہوتا ہے۔(والبخاری کثیر التتبع لما یرد علی ابی حنیفة من السنة کذا فی نصب الرایہ ص356 ج1)تو اگر خدا نحواستہ اس قسم کا کوئی ''اصول'' بن رہا ہو تو یہ تو آپ لوگوں کی منشاء کے مطابق ہی ہے پھر آپ اس سے کیوں فکر مند ہیں؟