کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 211
چاہئیے کہ وہ بھی سنن نسائی کے اس نسخہ کے جو ہندوستان میں متداول ہے،ایک راوی ہیں۔جنہوں نے ابن السنی سے اس کو سنا ہے۔(رکعات ص44) ج: لیکن میں کہتاہوں کہ ابن فنجویہ کی عدم شہرت اور محدثین میں ان کی غیر مقبولیت کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت چاہئیے کہ علامہ حافظ تاج الدین سبکی نے طبقات الشافعیہ ص96 ج2 میں امام ابو بکر ابن السنی کا ترجمہ تفصیل سے پیش کیا ہے۔ان کے اساتذہ اور تلامذہ دونوں کے ناموں کی فہرست پیش کی ہے،لیکن اس سلسلے میں ابن فنجویہ کا نام کہیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ علامہ سبکی کی نگاہ میں ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔اگر واقعی وہ ''علمی شہرت'' اور '' محدثین میں مقبولیت'' کے حامل ہوتے تو علامہ سبکی ان کو کبھی نظر اندازنہ کرتے۔ قولہ: اور ذہبی نے 414 ھ میں مرنے والے مشاہیر کے ضمن میں ان کا ذکر یوں کیا ہے:والمحدث ابو عبداﷲ حسین بن محمد بن حسین بن عبداللہ بن فنجویہ(1)الثقفی الدینوری نیشا پوری(2)(ص244 ج3،رکعات ص....) ج: لیجئے صرف ''محدث'' لکھا ہے۔نہ محدث شہیر نہ محدث کبیر نہ من کبار المحدثین نہ اس قسم کا کوئی اور لفظ۔تو کیا اتنی سی بات سے ان کی ثقاہت یا ثقاہت کی شہرت عام کا ثبوت ہو گیا؟ میں کسی طرح باور نہیں کر سکتا کہ آپ اتنا بھی نہ جا نتے ہوں گے کہ (1) فنجویہ بفتح الفاء و مسکون النون و فتح الجیم کذا فی ھامش التذکرة الحافظ للذہبی۔ (2) نیشا پوری غلط ہے۔صحیح ''بنیسا بور'' ہے۔دیکھو!تذکرة ا لحفاظ للذہبی ص244 جلد 3۔