کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 210
اس کے الفاظ پر غور کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔وہ لکھتے ہیں: باب فی المحدث المشہور بالعدالة والثقةَ والامانة لا یحتاج الٰی تزکیة المعدل۔(کفایہ ص86) دیکھئے!یہ حضرات یہ نہیں کہتے کہ جس کے محدث ہونے کی شہرت ہو جائے،بلکہ یہ کہتے ہیں کہ جس کی عدالت،ثقاہت،اور امانت کی عام شہرت ہو وہ تزکیہ معدل سے مستغنیٰ ہے۔ پھر ان عبارتوں کو آپ کے مدعا سے کیا تعلق ہے۔خواہ مخواہ عوام کو مغالطہ دینا اور ان کی ناواقفیت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا،یہ کہاں کی دیانت ہے؟ اسی سلسلے میں رکعات ص43 پر ابن عبدالبر کا جو کلام مولانا مئوی نے مقدمہ ابن الصلاح کے حوالہ سے نقل کیا ہے،افسوس ہے کہ اس کے نقل کرنے میں بھی خیا نت کی گئی ہے۔اس کی آخر کا وہ حصہ جس میں حافظ ابن الصلاح نے ابن عبدالبر کی تردید کی ہے،اس کو نقل نہیں کیا گیا۔مولانا مئوی کی خیانت کا یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے۔بلکہ اس کتاب میں بیشتر مقامات میں انہوں نے اس افسوسناک حرکت کا ارتکاب کیا ہے۔اگر دیدۂ عبرت ہو تو یہی بات اس نزاع کا بآسانی فیصلہ کر دیتی ہے کہ کسی کو محض ''علامہ کبیر'' اور '' محدث شہیر'' لکھ دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس میں ثقاہت،عدالت اور امانت کا تحقق بھی ہو۔فافہم اس تمہید کے بعد مولانا مئوی نے ابن فنجویہ کی عدالت و ثقاہت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے مگر کوئی ''بڑا محدث'' بھی ثابت نہ کر سکے۔ثقاہت اور ثقاہت کی عام شہرت تو بڑی بات ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں: قولہ: جب یہ ثابت ہو چکا تو اب سنئے کہ ابن فنجویہ کی علمی شہرت اور محدثین میں ان کی مقبولیت کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت