کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 21
المجتہدین۔الخ جب کسی مسئلہ میں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم مل جاتی تو کسی صحابی کے اثر یا مجتہد کے اجتہاد کی اتباع نہ کرتے۔(مختصراً از حجة اللہ ص119 ج1 طبع مصر) اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی '' سنت ثابتہ'' کی بابت ہمارے نزدیک یہ سوال اٹھانا ہی سرے سے اصولاً غلط ہے کہ '' فلاں مدت سے اس پر مسلمانوں کاعمل نہیں ہے '' یہ تو حدیث کے ردّ کر دینے کا ایک مقلدانہ حیلہ ہے۔چنانچہ علامہ محمد عابد سندھی کے مایہ ناز استاذ علامہ فلانی اپنی کتاب '' ایقاذہمم اولی الابصار'' میں مقلدانہ حیلوں کے بیان کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:وان عجذ عن ذالک کلہ ادعی النسخ بلا دلیل او الخصوصیة او عدم العمل بہ او غیر ذالک مما یحضر ذہنہ العلیل(109) یعنی مقلد اپنے امام کی رائے کے خلاف جب کسی حدیث کو پاتا ہے تو مختلف قسم کی دور دراز تاویلوں سے اس کو رد کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جب سب باتوں سے عاجر آجاتا ہے تو بلا دلیل یہ دعویٰ کر دیتا ہے کہ یہ تو منسوخ ہے۔یا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے یا یہ کہ اس پر عمل نہیں ہے۔ حافظ ابن القیم رحمة اللہ علیہ اہل المدینہ کو حجة قرار دینے والوں کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: والسنۃ ہی العیار علی العمل ولیس العمل عیارًا علی السنۃ(اعلام ص298 ج1) یعنی لوگوں کے عمل کی تصحیح کا معیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے