کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 209
محدث مبارک پوری نے مولانا نیموی کی جو گرفت کی ہے وہ بالکل حق اور صواب ہے۔اس گرفت کا جواب دینے کے لئے مولانا مئوی نے ہاتھ پاؤں تو بہت مارے ہیں،لیکن مغالطہ آمیز باتوں اور غیر متعلق عبارتوں کے سوا اور کچھ پیش نہیں کر سکے۔ چنانچہ ابن الصلاح اور خطیب کے حوالے سے ا س بحث کے سلسلے میں جتنی عبارتیں مولانا مئوی نے نقل کی ہیں وہ سب بے محل اور امر زیر بحث سے قطعًا بے تعلق ہیں۔ان میں کسی میں بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص فنی معلومات کی وجہ سے بڑا عالم،بڑا فقیہ،بڑا محدث مانا جائے تو محض اتنی ہی بات سے لازم آ جاتا ہے کہ وہ روایت کے اعتبار سے بھی ان تمام صفات و شروط کا حامل ہے جو روایت کی مقبولیّت اور راوی کی ثقاہت کے لئے ضروری قرار دی کئی ہیں۔حافظ ابن الصلاح او رعلامہ خطیب نے تو بالکل ایک دوسری ہی بات کہی ہے۔انہوں نے جو کچھ کہا ہے اس کا حاصل تو یہ ہے کہ جس راوی کی عدالت،ثقاہت،امانت،شہرت عام رکھتی ہو،بکثرت اس کا چرچا اور شیوع ہو،جیسے امام مالک،شعبہ،سفیان،ا وزاعی،لیث،ابن المبارک،وکیع،احمد بن حنبل،یحیٰ بن معین،علی بن المدینی وغیرہم۔تو ایسے لوگوں کی عدالت و ثقاہت کا ثبوت اس بات کا محتاج نہیں ہے کہ کوئی خاص شخص نصّاً و لفظًا ان کی توثیق کرے۔حافظ ابن الصلاح کے ان الفاظ پر غور کیجئے: فمن اشتہرت عدالتہ بین اہل النقل او نحوہم من العلم وشاع الثناء علیہ بالثقة والامانة استغنیٰ فیہ بذلک من بینة شاہدة بعد التہ تنصیصًا۔(مقدمہ ص40) حافظ ابو بکر خطیب بغدادی کے باب کا حوالہ تو آپ نے دے دیا،لیکن