کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 206
مولانا مؤی نے یہاں اس روایت کا یہ ٹکڑا اس لیے حذف کر دیا ہے کہ احناف بیس رکعتوں پر تو عامل ہیں،مگر اس کی اس کیفیت پر عامل نہیں ہیں۔اور مولانا مؤی اس سے پہلے اہل حدیث کو یہ الزام دے چکے ہیں کہ یہ لوگ جس حدیث کی بنیاد پر گیارہ رکعت تراویح کے قائل ہیں،اس حدیث میں گیارہ رکعتوں کے ادا کرنے کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے اس پر اہل حدیث عمل نہیں کرتے ……تو اب بعینہ یہ الزام احناف پر بھی عائد ہوتا ہے اور مولانا کے پاس اس کا کوئی جواب تھا نہیں۔اس لئے ''جان چھڑانے '' کی اس کے سوا کوئی صورت نظر نہ آئی کہ اس ٹکڑے کو حذف ہی کر دیں([1] ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند اس روایت کی اسناد پر کلام: مولانا شوق نیموی مرحوم نے آثار السنن ص542 پر تعلیق میں اس روایت کے تمام راویوں کی توثیق بیان کی ہے۔چنانچہ اس کے پہلے راوی ابو عبداللہ بن فنجویہ کی بابت لکھا ہے فھو من کبار المحدثین فی زمانہ لا یسئل عن مثلہ(یہ اپنے زمانے کے بڑے محدثوں میں ہیں۔ان جیسوں کے متعلق یہ سوال نہیں ہو سکتا کہ وہ کیسے ہیں)نیموی کی اس بات پر محدث مبارک پوری نے تحفة الاحوذی ص752 میں گرفت فرمایا اورلکھا ہے کہ مجرد کونہ من کبار المحدثین لا یستلزم کونہ ثقة(یعنی صرف اتنی بات سے کہ وہ بڑے محدثوں میں ہیں،یہ لازم نہیں کہ وہ ثقہ بھی ہوں)اس عبارت میں مجرد کونہ(صرف بڑے محدث ہونے)کا لفظ خاص طورسے قابل لحاظ تھا۔مگر مولانا مؤی کی دیانت دیکھیے کہ انہوں نے اس عبارت کا
[1] اس سے پہلے رکعات ص2 اور ص 53 کے حاشیہ میں جو مختصر تذکرہ اس ٹکڑے کا مولانامئوی نے کیاہے وہاں بھی اس الزام کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔