کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 205
ہے و ہ رد کر دی جائے گی۔ مولانا مؤی نے کوئی ٹوٹی پھوٹی دلیل بھی اپنے دعوے پر پیش نہیں کی ہے کہ اب ابو شیبہ حدیث میں صرف تراویح کا بیان ہے،تہجد کا نہیں ہے۔اگر وہ کوئی دلیل لاتے تو مقابلةً اسی سے پتہ لگ جاتا کہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا(زیر بحث)میں تراویح کا بیان ہے یا نہیں۔بشرطیکہ وہ دلیل نفس حدیث کے الفاظ سے متعلق ہوتی۔ احناف کی دوسری دلیل پر بحث قولہ:(دوسری دلیل)امام بیہقی کی سنن کبریٰ ص 4962 میں حضرت سائب بن یزید راوی ہیں:کانوا یقومون علی عہد عمر بن الخطاب رضی اللّٰه عنہ فی شہر رمضان بعشرین رکعة۔یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ رمضان کے مہینے میں بیس رکعت پڑھتے تھے او ر اسی اثر کو امام بیہقی نے دوسرے طریق سے معرفتہ السنن میں بھی روایت کیا ہے۔(رکعاتص63) ج: سنن کبریٰ کی اس روایت میں جہاں بیس رکعت پڑھنے کا ذکرہے وہیں ان بیس رکعتوں کے اد ا کرنے کی کیفیت کا بھی بیان ہے،لیکن مولانا مؤی نے مصلحتاً اس کو حذف کر دیا ہے۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں: قال و کانوا یقرؤن بالمئین و کانوا یتوکؤن علی عصیہم فی عہد عثمان بن عفان رضی اللّٰه عنہ من شدة القیام۔ یعنی لوگ وہ سورتیں پڑھتے تھے جن میں آیتوں کی تعداد سو سے زیادہ ہے اور حضرت عثمان کے زمانے میں تو اتنا لمبا قیام کرتے تھے کہ لوگ (تھک کر)لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے تھے ''۔