کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 204
مؤطا کا جو قول نقل کیا ہے اس کے آخر کا ٹکڑا حذف کر دیا ہے جو ان کے مطلب کے خلاف ہے۔اس عبارت کا آخری حصہ یہ ہے: اور ضمت فیہ ماکان یفتتح بہ صلاتہ من رکعتین خفیفتین قبل الاحدی عشرة انتھی۔ یعنی گیارہ اور تیرہ رکعات کے اختلاف کو دور کرنے کے لئے یا تو یہ کہا جائے کہ جس روایت میں تیرہ رکعات پڑھنے کا ذکر ہے اس میں حضرت عائشہ نے دو ہلکی رکعتوں کو بھی شمار کر لیا ہے جو گیارہ رکعات سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے۔ اس توجیہہ کو حافظ نے ارجح بتایا ہے،مگر مولانا مؤی نے اپنی پوری کتاب میں کہیں اس کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں کیا ہے۔اس لئے کہ اس توجیہہ کے مطابق بیس کو کہیں ''کھپانے'' کی گنجائش نہیں ملتی۔ قولہ: علاوہ بریں ابو شیبہ کی حدیث صحیحین کی حدیث کی مخالف اس لیے بھی نہیں ہے کہ حدیث صحیحین میں تہجد کا بیان ہے(جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے)اور حدیث ابو شیبہ میں تراویح کا۔(رکعات ص62و 63) ج: صحیحین کی حدیث میں تہجد اور تراویح دونوں چیزوں کا بیان ہے۔جیسا کہ تفصیل کے ساتھ اوپر بتایا جا چکا ہے اور اس کے خلاف مؤی صاحب کی تمام تلبیسات و تشکیکات کا پردہ اچھی طرح چاک کر دیا گیا ہے۔جب اس میں تراویح کا بھی بیان ہے اور اس حصر کیساتھ ہے کہ گیارہ رکعات(بلا رکعتین خفیفتین اور تیرہ رکعات بشمول رکعتین خفیفتین)سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔تو اب حدیث ابو شیبہ کیساتھ(جس میں بیس رکعتوں کا پڑھنا بیان کیا گیا ہے)مخالفت ظاہر ہے۔ایسی صورت میں جو حدیث صحیح اور مقبول ہے وہی معتبر ہوگی اور جو ضعیف اور نامقبول