کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 203
ع: لاکھ نادان سہی پر کیا تجھ سے بھی نادان ہوں گے اس اعتراض کے جواب میں مولانا مؤی نے جو کچھ فرمایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ '' حدیث صحیحین میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمیشہ کی عادت نہیں بتائی گئی ہے،کیوں کہ حضرت عائشہ ہی نے دوسری جگہ فرمایا ہے کہ آپ تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔تو جس طرح یہ کہنا کہ اکثر اوقات کے علاوہ کسی کسی وقت آپ نے تیرہ رکعتیں پڑھی ہیں،حدیث صحیحین کے خلاف نہیں ہے۔اسی طرح یہ بیان کرنا کہ کسی وقت آپ نے بیس بھی پڑھی ہیں۔حدیثِ صحیحینکے خلاف نہیں ہو سکتا۔'' لیکن یہ بات تو وہ کہہ سکتا ہے جو بیس رکعات کا پڑھنا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اور صحیح مانتا ہو۔جو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں وہ کیسے کہ سکتے ہیں کہ آپ نے کسی وقت میں بیس بھی پڑھی ہیں۔چنانچہ جن لوگوں نے یہ اعتراض وارد کیا ہے۔انہوں نے سب سے پہلے یہی کہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بسندصحیح بیس کا پڑھنا ثابت نہیں ہے بلکہ اس کے بر خلاف صحیح طور پر جو ثابت ہے وہ گیارہ یا تیرہ رکعات ہیں۔اس سے زیادہ نہیں۔ایسی متضاد بات کون ذی عقل انسان کر سکتا ہے؟کہ ایک طرف تو وہ یہ کہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیس پڑھنا ثابت نہیں او ر دوسری طرف وہ یہ بھی تسلیم کرے کہ کسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس بھی پڑھی ہیں۔اختلافات ِ اوقات و احوال پر ان اعمال کو محمول کیا گیاہے جن کا صحیح طور پر ثبوت مسلّم ہے۔گیارہ اور تیرہ کے اختلافات کے متعلق تفصیلی بحث پہلے گذر چکی ہے۔وہاں ہم نے بتایا ہے کہ مولانا مؤی نے حافظ ابن حجر کی بیان کردہ توجیہات کے نقل کرنے میں بڑی تلبیس و تدلیس سے کام لیا ہے۔وہی حرکت مولانا مؤی نے یہاں بھی کی ہے۔تنویرالحوالک کے حوالہ سے باجی شارح