کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 200
قولہ:ابو شیبہ کی اس حدیث پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ صحیحین کی حدیث ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرة رکعة(یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے)کی مخالف ہیے،مگر یہ اعتراض سراسر غفلت اور ذہول پر مبنی ہے۔(رکعات ص 61،62)۔ ج:تعجب ہے کہ مولانا مئوی نے اس موقعہ پر اپنی عادت کے خلاف ان علماء کے نام کیوں نہیں بتائے جنہوں نے ابوشیبہ کی اس حدیث پر یہ اعتراض وارد کیا ہے۔کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں ہے کہ اس ''سراسر غفلت اور ذہول پر مبنی اعتراض' ' کرنے والوں میں خود احناف کے بڑے بڑے علماء بھی شامل ہیں۔وہ علماء جن میں ہر ایک اپنی اپنی جگہ پر ایوانِ حنفیت کا صدر نشین اور قصرِ حنفیت کا ایک مظبوط ستون ہے۔مثلاً علامہ ابن الہمام المتوفی ص 861ھ اور علامہ زیلعی المتوفی 762 ھ۔ علماء احناف میں علامہ ابن الہمام کا علمی مقام کتنا اونچا ہے اس کا اندازہ مولانا عبدالحئی حنفی لکھنوی کے مندرجہ ذیل بیان سے ہو سکتا ہے۔لکھتے ہیں: عدہ ابن نجیم فی بحر الرائق من اہل الترجیح و بعضہم من اہل الاجتہاد وھو رای نجیح تشہد بذلک تصانیفہ و توالیفہ انتہی(فوائد بہیہ ص65) ابن نجیم نے ابن الہمام کو اہل ترجیح میں شمار کیا ہے جو اصطلاحاً مجتہد کا ایک درجہ ہے اور بعض نے تو ان کو مجتہد ہی کہا ہے اور یہ رائے بالکل صحیح ہے،ان کی تصانیف اس کی شاہد ہیں۔ علامہ زیلعی کے متعلق لکھتے ہیں: