کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 20
بعدبھی خیر القرون کا ایک طویل زمانہ اس نام نہاد تعامل سے خالی رہا ہے،مگرپھر بھی زعم یہی ہے کہ یہی '' سنت '' ہے اور اس کے خلافِ سنت ہے۔یا للعجب وضیعة الادب۔ ثانیًا: مولانا مئوی کو معلوم ہونا چاہئیے کہ ہم '' اہل حدیث'' ہیں۔ہمارا نعرہ ہے اصل دین آمد کلام اللہ معظم داشتن پس حدیث مصطفی برجاں مسلم داشتن ہم کہا کرتے ہیں: ہوتے ہوئے مصطفی کی گفتار مت دیکھ کسی کا قول و کردار ہمارا شیوہ معرفت الحق بالرجال نہیں بلکہ معرفت الرجال بالحق ہے۔ہمارا اصول حضرت شاہ ولی علیہ الرحمة کے لفظوں میں یہ ہے: .... فاذا لم یجدو فی کتاب اللّٰه اخذوا سنة رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم سواء کان مستفیضًا دائرًا بین الفقہاء ویکون مختصًا باہل بلد اور اہل بیت او ربطریقة خاصة وسوائٍ عمل بہ الصحابة والفقہاء اولم یعلموا بہ ومتیٰ کان فی المسئلة حدیث فلا یتبع فیہا خلاف اثر من الاٰثار ولا اجتہاد احد من (محدثین کا قاعدہ یہ تھا کہ)جب کسی مسئلہ میں قرآنی فیصلہ نہ ملتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اورسنت سے اس مسئلہ کو لیتے۔خواہ وہ حدیث فقہاء میں مشہور ہو یا کسی شہر کے لوگوں میں پائی جاتی ہو۔یا کسی خاص گھر کے لوگوں میں یا کسی خاص سند سے مروی ہو چاہے صحابہ اور فقہاء نے اس پر عمل کیا ہو یا نہ کیا ہو او ر