کتاب: انوار المصابیح بجواب رکعات تراویح - صفحہ 196
موافقة الا جماع لہ علی الاصح لجواز ان یکون المستند غیرہ(تدریب الراوی ص 15) قولہ:ان باتوں کے انضمام سے ابوشیبہ کی حدیث اس قدر قوی اور مستحکم ہو جاتی ہے کہ اس کے بعد اس کو ضعیف کہہ کر جان چھڑانا ناممکن سی بات ہو جاتی ہے(رکعات ص 60) ج:ابو شیبہ کی حدیث کے ساتھ ان باتوں کا انضمام ہوتا ہی نہیں۔اس لئے اس کا ضعف اپنی جگہ جوں کا توں باقی ہے بلکہ اس لحاظ سے تو اس ضعف اور غیر مقبولیت اور زیادہ نمایاں اور محقق ہو جاتی ہے کہ خود بیس رکعات تراویح کے پڑھنے والے سلف بھی اس حدیث کو اپنی حجت قرار نہیں دیتے۔جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ان کے نزدیک بھی یہ مرفوع حدیث قابل احتجاج اور لائق استدلال نہیں ہے۔ رہا ''جان چھڑانے'' کامعاملہ تو مولانا!یہ اہل حدیث کا کام نہیں ہے یہ مقلدین کا شیوہ ہے۔چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ شیخ عزیز الدین بن عبدالسلام المتوفی 660 ھ سے نقل فرماتے ہیں: ومن العجب العجیب ان الفقھاء المقلدین یقف احدھم علی ضعف ما خذ امامہ بحیث لا یجد لضعفہ مدفعا وھو مع ذلک یقلدہ فیہ و یترک من شھد الکتاب والسنة والا قیسة الصحیحة لمذھبھم جموداً علی تقلید امامہ بل یتحیل لدفع ظاہر الکتاب والسنة وتولھا بالتویلات البعیدة الباطلة نضالاً عن مقلدہ انتھی(حجة اللّٰه ص 155 طبع مصر)۔ ''یعنی یہ تعجب کی بات ہے کہ بعض فقہاء مقلدین اپنے امام کی دلیل کے ضعف پر